اس وقت کرہ ارض پرتقریباً ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان آباد ہیںیعنی دنیا کی کل آبادی میں مسلمانوں کی شرح آبادی تقریباً 25 فی صد ہیں۔ ان میں تقریباً ایک ارب سے زیادہ براعظم ایشاء میں ، پانچ سو ملین سے زیادہ براعظم افریقہ میں ،چھپن ملین کے قریب یورپ میں اور دس ملین کے قریب شمالی و جنوبی امریکہ میں رہتے ہیں. ایک survey کے مطابق دنیا میں ہر پانچواں انسان مسلمان ہے۔دنیا کے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد کے ساتھ مسلمانوں کا تناسب کچھ اس طرح سے بنتا ہے کہ تقریباً ہر ہندو کے مقابلے میں دو مسلمان ، ہر یہودی کے مقابلے میں سو مسلمان اور تقریباً ہر مسلمان 1.4 عیسائوں کے مقابلے میں آباد ہیں۔ اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC) کے رکن ممالک کی تعداد 57 ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس قدر کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان بے وقعت اور کمزور کیوں ہیں ؟ اقوام متحدہ کے ادارے برائے ترقی UNDP کے مطابق پوری دنیا میں عیسائی قوم کی شرح خواندگی تقریباً 90 فیصد ہے اور 15 عیسائی ممالک ایسے ہیں جہاں شرح خواندگی 100 فیصد ہے۔اس کے بالکل برعکس مسلم ممالک میں اوسط شرح خواندگی تقریباً 40 فیصد ہے اور کوئی بھی مسلم ملک ایسا نہیں جہاں شرح خواندگی 100 فیصد ہو۔ مزید برآں 1901 سے 2015 تک کل گیارہ مسلمانوں نے دنیا کا سب بڑا علمی اعزاز نوبیل پرائزحاصل کیا ۔ اب آپ خود اندازہ کیجئے مسلمان ترقی اور ٹیکنالوجی میں دوسروں یا غیروں سے پیچھے کیوں ہیں ؟ واضح رہے کہ جو قوم علم و ہنر میں پیچھے ہو ، اس کا انجام سوائے مغلوبیت کے کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم اقوام میں سائنس ، ٹیکنالوجی میں کمزوری کے باعث غیر مسلم ممالک اسکا فائدہ اٹھاتے ہیں اور تقریباً تمام اسلامی ممالک پر اپنا رعب جمائے ہوئے عملی طور پر ان کو غلام بنا چکے ہیں۔ مسلمان کم و بیش ایک ہزار سال تک شان و شوکت کے ساتھ دنیا پر حکومت کرتے رہے۔علم و حکمت ، سیاست اور دولت و حشمت میں کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ چند علاقوں کے سوا تقریباً ساری دنیا مسلمانوں کی مفتوح تھی۔ اس دور میں مسلمانوں نے علمی ترقی کی مضبوط بنیادیں ڈالیں تھیں اور ان کے لئے سائنسی ترقی کا زبردست دور رہا ہے ، کامیابی قدم قدم پر مسلمانوں کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی نظر آتی لیکن رفتہ رفتہ حالات الٹی سمت میںبدلنے لگے ۔ مسلمانوں کے دین بیزار اعمال اور کوتاہیوں سے ایک ایک کرکے مسلم ممالک مسلمانوں کی دسترس سے نکلتے گئے اور مسلمانوں کی حالت دنیا میں لاوارث بچے کی طرح ہوگئی۔ تمام قدرتی وسائل کے باوجود مسلمان دنیا میں بے وقعت اور کمزور ہونے لگے اور آج تک دوبارہ زوال سے اٹھ نہ سکے۔جب کسی قوم کو عروج مل جاتا ہے تو اسے برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا ، دور عروج میں قوم کے افراد سہولت پسند ، کاہل اور سست پڑجاتے ہیں اور بلند نظر افراد کی کمی واقع ہو تو زوال شروع ہوجاتاہے ۔ معاشی فراونی سے قوموں کی توانائیاں اور صلاحیتیں عیش و عشرت کے ہاتھوں زنگ آلود ہونے لگتی ہیں اور بقا و استحکام کے لئے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے ،وہ ناپید ہونے لگتی ہیں۔ مختلف قسم کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر قوم اپنا حاصل کیا ہوا مقام کھو بیٹھتی ہے ۔ ممکن ہے قوم کی ڈوبتی نبض کو وقتی طور پر اغیار کاکوئی سہارا مل جائے ، لیکن یہ قومی زوال کی سب سے بڑی علامت ہوتی ہے۔ علامہ اقبال علیہ رحمہ نے اپنی ایک بلیغ نظم "مسلمان کا زوال" میں مسلمانوں کے زوال کا باعث یہ قرار دیا ہے کہ مسلمانوں میں شانِ فقر نہیں رہا یعنی وہ توحید (اسلام) کی تعلیمات پر قائم نہ رہے، وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو امام و قائد مانتے ہیں لیکن افسوس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں ؎
اگر چہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر تونگری سے نہیں
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
اگر جہاں میں مرا جوہر آشکارا ہوا
قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں
یقیناً آج امت مسلمہ تنزلی اور زوال کی شکار ہے ۔حالانکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مسلمانوں کو تفرقہ وانتشار سے بچنے کے واضح احکام صادر کئے ہیں۔سورہ آل عمران آیت 103میں فرمایا: "اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ ڈالو ، اور اپنے اوپر اللہ کی رحمت یاد کرو…. " اس آیت شریف کی تفسیر میں علماء کرام لکھتے ہیں کہ ممانعت ِتفرقہ سے مراد یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کی مخالفت میں گروہ بندیاںنہ کرو، ایک دوسرے کے ساتھ عداوت اور بغض نہ رکھو۔ افسوس کہ مسلمان جدید دور سے گزر رہے ہیں ، لیکن ہماری سوچ ، خیالات و افکار اور کردار زمانہ جاہلیت کے ادوار سے بھی گئے گزرے ہیں۔مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ اس پر شاہد عادل ہے کہ جب بھی مسلمان تفرقہ کے شکار ہوئے ، عنانِ حکومت ان کے ہاتھوں سے جاتی رہی ،یا تو وہ صفحہ ہستی سے مٹا دئے گئے یا غیروں کے محکوم و غلام بن گئے. ایک مثال اندلس (اسپین) کی ہے۔ مختصر یہ کہ مسلمانوں کے لئے تنزل اور زوال کی گھاٹی سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات زندگی میں من و عن لائے جائیں ، کتاب الہٰی یعنی قرآن مقدس پر عمل پیرا ہو کر اپنے تمام اختلافات ختم کرکے ہم سب متحد ہوجائیں اور جدید علوم میں استادانہ مہارت حاصل کریں ، مسلکی ، مکتبی و گروہی تعصب سے بالاتر ہو کے ایک ودسرے کااحترام کریں،قرآن مجید کی آیات بینات پر غور وفکر کریں اور دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ذکر کس طرح فرمایا ہے، اپنی کاری گری اور projects کا ذکر فرما کر مسلمانوں کے لئے غور و فکر کرنے کی ہدایت کیوںفرمائی ہے ، زمین ، سورج ، چاند ، دیگر ستاروں اور سیاروں وغیرہ کا ذکر کرکے دن اور رات کی گردش کو کیوںاپنی قدرت کاملہ کی نشانی قرار دیاہے، بارش برسنے ، ہواؤں کے چلنے ، مردہ بیج سے زندہ پودا پیدا کرنے ، بچے کے جنم اور بڑے ہو کر زندگی گذار کر دنیا سے چلے جانے ، زمین کے خزانوں ، جنگل ، چرندوں ، پرندوں ، درندوں ، پھلوں ، پھولوں وغیرہ کا ذکر اس لئے فرمایا گیا ہے تاکہ مسلمان غور و فکر کریں، جیسا کہ بار بار فرمایا گیا ان سب مظاہر قدرت میں اُن قوموں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتی ہیں ۔ غور و فکر کو Research کہتے ہیں اور ریسرچ سے ہی سائنسدان اور ماہرین تیار ہوتے ہیں ۔کیا مسلمانوں کے لئے یہ لمحۂ فکریہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کی آیات کو مانتے ہیں اور روز تلاوت بھی کرتے رہتے ہیں لیکن بالعموم اس پرغور و فکر نہیں کرتے ہیں ؟ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سب مسلمان اپنی ان تمام خامیوں اور کمیوںسے کنارہ کشی اختیار کریں، جن کی وجہ سے مسلمانوں کا عروج زوال میں تبدیل ہوا ہے اور قرآن و تعلیمات رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر غور و فکر کریں تاکہ اس طرح اغیار کے مکر و فریب کا ڈٹ کر مقابلہ ہی نہ کیا جائے بلکہ انہیں بھی دین ِ انسانیت کی تعلیم دی جائے۔
رابطہ :بوٹینگو۔۔۔ زینہ گیر کشمیر
فون نمبر: 9797082756