طارق حمید شاہ ندوی
امامت محض چند لمحوں کی نماز کی قیادت کا نام نہیں بلکہ یہ روحوں کو سنوارنے اور دلوں کو اللہ سے جوڑنے کا ایک مقدس فریضہ ہے۔ امام مسجد کے محراب میں کھڑا ہو کر نہ صرف صفوں کو سیدھا کرتا ہے بلکہ زندگیوں کو بھی سیدھا کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ اس کی زبان سے نکلنے والا ہر کلمہ گویا چراغ کی لو ہے جو اندھیروں کو کتر کر روشنی کا راستہ دکھاتی ہے۔ لیکن ایک سوال صدیوں سے لوگوں کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے: کیا یہ مقدس خدمت اجرت کی مستحق ہے؟ کیا امام کو معاشی سہارا دینا امت کی ذمہ داری ہے یا پھر یہ دین فروشی کے مترادف ٹھہرے گا؟اسلام کی تاریخ اٹھا کر دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ دین ہمیشہ ضرورت اور حقیقت کے تقاضوں کے ساتھ چلتا ہے۔ نبی اکرمؐ کے دور میں بھی ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی خدمت پر معاوضہ لینا ناجائز نہیں۔ بخاری شریف میں ایک واقعہ ہے کہ ایک صحابیؓ نے سورہ فاتحہ پڑھ کر قبیلے کے سردار کو دم کیا اور اس کے بدلے بکریاں وصول کیں۔ جب رسول اللہؐ کے سامنے یہ بات رکھی گئی تو آپؐ نے اس کو جائز قرار دیا اور فرمایا: ’’سب سے زیادہ حلال اجرت وہ ہے جو اللہ کی کتاب پر لی جائے۔‘‘ یہ دراصل اس تصور کی بنیاد ہے کہ قرآن، تعلیم اور امامت جیسی خدمات پر اجرت لینا دین کو بیچنا نہیں بلکہ دین کو زندہ رکھنا ہے۔
فقہاء کرام نے بھی وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے یہی فتویٰ دیا۔ امام سرخسیؒ فرماتے ہیں: ’’جب کوئی شخص اپنا وقت دینی خدمت میں صرف کرے تو اس کا حق ہے کہ اسے اس کے مشغلے کے مطابق سہارا دیا جائے۔‘‘ علامہ ابن عابدینؒ مزید لکھتے ہیں کہ: ’’اگر ائمہ کو اجرت نہ دی جائے تو دین کی یہ بنیادی خدمت موقوف ہو جائے گی۔‘‘ یوں گویا فقہ اسلامی نے امامت پر اجرت کو ناگزیر قرار دیا۔
مگر افسوس یہ ہے کہ آج کے معاشرے میں امام کا مقام بظاہر بلند ضرور ہے مگر حقیقت میں اکثر اوقات وہ معاشی تنگی کے دلدل میں پھنسے رہتے ہیں۔ معاشرہ جس زبان کو محراب میں بلند سنتا ہے، وہی زبان کبھی گھر کے صحن میں روٹی کے لئےترس جاتی ہے۔ جس امام کی تکبیر پر لوگ اپنے کاروبار بند کر کے مسجد کی طرف دوڑتے ہیں، وہی امام دن کے کسی کونے میں چھوٹے موٹے کام کرکے اپنے بچوں کی بھوک مٹانے پر مجبور ہوتا ہے۔یہ بے قدری اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ آج کوئی والد اپنے بچے کے لیے مدارسِ اسلامیہ کا انتخاب کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ وجہ صاف ہے،اگر بچے نے دین کی تعلیم حاصل کر بھی لی تو مستقبل میں اس کی زندگی غربت، محرومی اور ناقدری میں گزرے گی۔ اس سے بھی بڑھ کرکئی امام حضرات خود اپنے بچوں کو دینی تعلیم کی طرف نہیں بھیجتے کیونکہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے مقتدیوں کے رویوں، بے اعتنائی اور ناقدری کے تجربات کو دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ دین کے وارث پیدا کرنے سے کترانے لگا ہے۔یہی نہیں بلکہ بعض جید علماء اور حافظِ قرآن بھی اس بے توقیری اور تنگ دستی سے تنگ آکر امامت کے منصب کو چھوڑ کر دنیاوی مشاغل میں مصروف ہوگئے۔ کوئی کاروبار کر رہا ہے، کوئی نوکری ڈھونڈنے لگا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آنے والے دنوں میں مساجد کو صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ، متقی اور باصلاحیت امام ملنا دشوار ہو جائے گا اور جب امام ہی نہ ہوں گے تو مساجد ویران ہو جائیں گی، صفیں ٹوٹ جائیں گی اور نمازوں کا روحانی ذوق ماند پڑ جائے گا۔
یہ درست ہے کہ امامت عبادت ہے، لیکن عبادت گزار کا پیٹ بھی بھوک سے خالی نہ ہو۔ بھوکا پیٹ نہ یکسوئی کے ساتھ نماز پڑھنے دیتا ہے اور نہ تدریسِ قرآن کی توفیق بخشتا ہے۔ اسی لئے امامت پر اجرت دینا امام پر احسان نہیں بلکہ امت کی ذمہ داری ہے۔ یہ اجرت دراصل وہ زادِ راہ ہے جس کے سہارے امام اپنے منصب کی بلندیوں کو قائم رکھ سکتا ہے۔ہمارے سماج میں ایک عجیب تضاد ہے۔ ہم اپنے گھروں کے ملازموں کو تنخواہ دیتے ہیں، اپنے بچوں کے اساتذہ کو فیس دیتے ہیں، لیکن مسجد کے امام سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بلا معاوضہ ہمیں دین کی روشنی بانٹتے رہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امام کی خدمت کو سہارا دینا امت کے ایمان کا تقاضا ہے۔ امام اگر معاشی تنگی میں مبتلا ہوگا تو اس کی توجہ فریضۂ امامت سے ہٹ کر روزی کے وسائل تلاش کرنے پر لگ جائے گی اور یہ امت کے لیے بہت بڑا خسارہ ہوگا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم امام کو اس کے شایانِ شان مقام دیں۔ اس کی عزت صرف صف کے پیچھے ’’السلام علیکم‘‘ کہنے سے پوری نہیں ہوگی بلکہ اس کے گھر میں سکون، اس کی اولاد کے لیے تعلیم اور اس کی زندگی کے لیے سہولتیں فراہم کرنا بھی امت کی ذمہ داری ہے۔ اگر امت اپنے امام کو معاشی سکون دے گی تو وہ بھی امت کو روحانی سکون دیتا رہے گا۔اے امتِ مسلمہ! ذرا سوچو! اگر یہی روش چلتی رہی تو کل تمہاری مسجدوں کو صحیح امام ملنا دشوار ہو جائے گا۔ پھر محراب و منبر خالی رہ جائیں گے، اذان تو بلند ہوگی لیکن اس کا جواب دینے والا کوئی بااخلاص امام نہ ہوگا۔لہٰذا آج ہی فیصلہ کرو کہ اپنے امام کی عزت نفس، اس کی ضرورتوں اور اس کی اولاد کی کفالت کو اپنی اجتماعی ذمہ داری سمجھو۔ یاد رکھو! امام کی عزت تمہاری نمازوں کی حفاظت ہے اور امام کا سکون تمہاری نسلوں کے ایمان کی ضمانت ہے۔