مجتبیٰ علی شجاعی
مثالی شخصیات کے علاوہ مثالی کتابیں تعلیم وتربیت کے بہترین اور کار آمد ذرائع ہوتے ہیں،یہ کتابیں جتنی زیادہ پختہ اورکامل ہوگی تعلیم وتربیت کے اعتبار سے اتنی ہی زیادہ کارآمد بھی ہوں گی۔قرآن کریم آخری آسمانی کتاب اور بنی نوع انسان کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ابدی پیغام ہے۔ اس کتاب میں اللہ تعالیٰ ایک کامیاب اور مثالی زندگی کی بنیادی باتوں، رہنما اصولوں اور اقدار کی وضاحت کر کے انسان کو اس کی مطلوبہ زندگی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔اس مقدس اور مقتدرکتاب کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تمام آیات کا مقصدبراہ راست یا بالواسطہ طور پرتمام عمر کے لوگوں کو تعلیم دینااورصالح تربیت کرنا ہے۔جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 129 اور 151 سورہ جمعہ کی آیت نمبر 2میں انسانوں کی ہدایت، تعلیم اور ترقی کو انبیاء کا فریضہ،ہدف اور ان کا بلند مقصد قرار دیا گیا ہے۔
تحریف سے پاک قرآن مجید ایک ایسی کردار ساز اور انقلابی کتاب ہے جوبنی نوع انسان کے لئے پیدائش سے لے کر موت تک کا لائف پلان پیش کرتاہے۔ ہدایت ورحمت کا یہ سرچشمہ انسان کے لئے دنیا و اخرت کی بھلائی ،فلاح اور کامیابی کی ضمانت دیتا ہے ۔یہ الٰہی دستورجس طرح انسان کے روحانی مسائل کی طرف توجہ دلاتا ہےاسی طرح سیاسی،معاشی،قانونی،تعلیمی ،سائنسی اور دیگر ڈھیر سارے سماجی مسائل کی جانب بھی توجہ دلاتا ہے اور ان مسائل میں بنی نوع انسان کی رہنمائی ورہبری کرتا ہے۔درحقیقت کتاب اللہ ایک لامثال انسانی دستور اور منشورہے، عالم ہستی میں اس سے بہتر کوئی دستاویز نہیں،جو انسانیت کے لئے حقیقی راہ نما ثابت ہو۔
سورہ مبارکہ انعام آیت نمبر59میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں، (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔ اور وه تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وه اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔‘‘
اس مقدس کتاب میں کسی فرد کے ذاتی مسائل کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہے،بلکہ تمام انسانوںکی تعلیم وتربیت،ان کے ذہنی،جسمانی، اخلاقی نشو نما، اور ترقی وکمالات کے اصول و قواعدبیان کر کے ایک پرامن، صاف وشفاف، امانت دار اور ذمہ دار معاشرے کی تشکیل کی رہنمائی کی گئی ہے ۔گویا قرآن ایک الٰہی انقلاب ہے جس کے اعلیٰ مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن سےانسانی نسلیں جڑیں ،اس کے زندگی بخش اور انسانیت ساز تعلیمات سے چمٹے رہیں ۔تاکہ بقائے انسانیت کے شعار کو عملی جامہ پہنایا جائے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں قرآنی کلچر سے لبریز معاشرے روحانی کمالات کی رفعتوں سے ہم کنار ہوگئے،جنہوں نے بڑی سے بڑی مادی طاقتوں کے گلے میںبدترین شکست کا ہار پہنایا۔ان معاشروں نے قرآن اور قرآن کے محافظوں کو اپنا رول ماڈل بنایا تھا۔ حضرت امام خمینی ؒ کی زیر قیادت انقلاب اسلامی کی کامیابی میں مرکزی کرداراسی قرآن نے ہی ادا کیا۔امام خمینی ؒ نے متعدد بار انقلابی اسلامی کی کامیابی کا جڑ تعلیمات قرآنی کو ہی قرار دیا۔
اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ قرآن کا لفظ لفظ انسانی ہدایت و تربیت کے چراغ ہیںاور لفظ لفظ بیداری اور ذمہ داری کی علامتیں ہیں۔آیات قرآنی میںتربیت اور ہدایت کے خزائن بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن عالم بشریت بالخصوص مسلم امہ کی بدنصیبی یہ ہے کہ اس بیش بہا ،لازوال اور بے مثال کتاب کو تنگ دائرے میں قید کردیا گیا ہے۔اگرچہ لوگوں کو اس میں غوروفکر کرنے کی دعوت دی گئی تھی اور گمراہی سے بچنے کے لئے قرآن واہلبیتؑ سے متمسک رہنے کی تلقین کی گئی تھی۔ لیکن افسوس صد افسوس غور وفکر کے بجائے ہم نےکلام الٰہی کےاصل اہداف ومقاصد پس پشت ڈال کر ایک عجیب وغریب کلچر کو تشکیل دیا ہے۔اس کلچر میں قرآن پاک کو مقبروں ،مسجدوں ،بھنڈاروں ،الماریوں ،تاقچوںاور ختموں تک محدود رکھا گیا ہے۔جو قرآن زندہ انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے نازل ہوا تھاہمارے معاشرے میں اسے مُردوں کو سنایا جاتا ہے ۔حقیقی معنوں میں ہم نے قرآن کو حقیر مفادات کے لئے استعمال کیا ہے اور اس کو محض ایک کتاب سمجھ کر اسےصرف تلاوت تک محدود رکھا ہے ۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ معاشرے کے کچھ طبقوںنے قرآن پاک کو پیسے بٹورنے کی مشین بنادی ہے ۔کچھ طبقوں نے اسے قسم کھانے کھلانے تک محدود رکھا ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارےاکثر علما اور مدرسین کے لئے قرآن پاک پیٹ بھرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔
سورہ مبارکہ ص آیت نمبر 29 میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’یہ (قرآن پاک) ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور صاحبان عقل نصیحت حاصل کریں۔‘‘سورہ مبارکہ الحشر آیت 21 میں ارشاد ہوا ہے:’’اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو (اے مخاطب!) تو اسے دیکھتا کہ وہ اللہ کے خوف سے جھک جاتا، پھٹ کر پاش پاش ہوجاتا، اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کر رہے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘
تدبر اور تفکر نہ کرنے والےغافل انسانوں کی اکثریت کو قرآن نے اندھے ،بہرے، گونگے، جاہل، بے عقل، بے شعور ،کم عقل،بندر اور گدھا جیسی صفات سے متعارف کیا ہے۔ ’’اور ہم نے دوزخ کے لیے بہت سے جن اور آدمی پیدا کیے ہیں، ان کے دل ہیں کہ ان سے سمجھتے نہیں، اور آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے نہیں، اور کان ہیں کہ ان سے سنتے نہیں، وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی گمراہی میں زیادہ ہیں، یہی لوگ غافل ہیں‘‘(سورہ مبارکہ الاعراف: ۱۷۹)
گویامتعدد آیات قرآنی میں تدبراور تفکر کی پرزورتلقین کی گئی ہے اور قرآن کے تئیں غفلت برتنے والوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔درواقع قرآن پر تدبر اور تفکر صالح تربیت کی بنیاد ہے اور یہ تدبر وتفکر انسانیت سازی ،کردار سازی اور معاشرہ سازی کا جزولاینفک ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں قرآن پاک کو ایک مقدس کتاب کی نگاہ سےتودیکھاجاتا ہے اور اس کو بند غلافوں میں بالائے طاق رکھا کر تعظیم وتکریم کی جاتی ہے، چوما جاتا ہے۔ شادیوں میں بطور تحائف ایک دوسرے کو دیا جاتا ہے لیکن قرآن کے اصل اہداف ومقاصد حاصل کرنے کی سعی نہیں کی جارہی ہے۔اس حوالے سے لیت ولعل سے کام لیا جارہا ہے۔قرآن پاک کے فوز وفلاح کے وسیع تصورپر پردہ پوشی کی جارہی ہے۔ہمیں جان لینا چاہئے کہ نزولِ قرآن کا ہدف محض تلاوت نہیںیا تعظیم وتکریم نہیں بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس سے رہنمائی حاصل کرنا لازمی ہے۔
قرآن کے تئیں جو ہماری اصل ذمہ داریاں ہیں اور قرآن ہم سے جو مطالبہ کرتا ہے ہم اس سے روگردانی اختیار کرتے ہیں۔اس الٰہی کلچر سے فرار اختیار کرتے ہیں۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہمارےمعاشرے میں قرآنی کلچرکی بو تک بھی نہیں پہنچی ۔روایت میں ہے کہ بہت سے لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں قرآن کی تعظیم کرتے ہیں لیکن قرآن ان پر لعنت کرتا ہے کیونکہ وہ قرآنی تعلیمات پر عمل نہیںکرتے ۔ پیامبر اسلامیؐ کا ارشاد ہے’’ الحافظ للقرآن العامل به” ‘‘یعنی قرآن کی حفاظت اس پر عمل کرنے سے ہوتی ہے۔اس تلخ حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ ہمارے معاشرے میں قرآن پر توجہ دینا قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ حقیقت میں قرآن آج بھی نظر انداز ہےاور دشمن جو بار بار قرآن پاک کی توہین کرتے ہیں، اس سے بڑھ کر ہم مسلمان ہی توہین قرآن کے مرتکب ہورہے ہیں۔ہمارے لیے یہ مقدس کتاب ایک ایسی کتاب میں تبدیل ہو گئی ہے جو صرف مخصوص جگہوں یا تقریبات میں استعمال ہوتی ہے، جیسے شادی کی دسترخوان، ماتم کی تقریب، سفر پر جانے والے کو اس کے نیچے نکالا جاتا ہے، اسی طرح استخارہ وغیرہ کے لئے۔قرآن سے وہ اثر نہیں ملتا جو ہمیں حاصل ہونا چاہیے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسلم معاشرہ قرآن سے غافل ہے اور قرآنی تعلیمات سے دوری اختیار کئے ہوئے ہیں قرآنی اصول و اقدار کو پامال کررہے ہیں ،قرآن کے اصل اہداف اور حقیقی پیغام کو عام کرنے میںغفلت شعاری برت رہے ہیں ۔ یہی وجوہات ذلت پسپائی، خانہ جنگی ،بدامنی ،نااتفاقی ،قتل وغارتگری،لوٹ مار ،ظلم و تشدد اور ناانصافی جیسے سینکڑوں سماجی برائیوں اور بداخلاقیوں کے سبب بن رہے ہیں۔خسیر دنیا ولآخرہ کا مصداق بن رہے ہیں۔
غافلین قرآن کے بارے میں پیامبر گرامی اسلامی روز قیامت شکایت کرتے ہوئے اللہ سے عرض کریںگے’’اے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا۔‘‘(سورہ فرقان آیت نمبر 30)۔
قرآن کے حوالے سے معاشرہ میں اگر لاپروہیاں ،خامیاں اور غفلت ہے، اس کا سب سے ذمہ دار ہمارا علما طبقہ اوردینی درسگاہوں کے مدرسین ہیں ۔جو قرآنی تعلیمات کے فروغ کے حوالے سے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھارہے ہیں،بلکہ ان دو طبقوں نے بھی تلاوت اور ختم تک ہی قرآن کو محدود رکھا ہے۔آج کے ترقی پذیر دور میں بھی عام لوگوں تک قرآن کا حقیقی پیغام نہیں پہنچ پارہا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ علما و مدرسین طبقہ قرآن کے حقیقی پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانے میں کارگر اقدامات اٹھائیں تاکہ ہمارے معاشرے میں بھی قرآن کو بطور منشور حیات کی نگاہ سے دیکھا جائے۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں قرآن سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
)رابطہ۔4940301148)