مالک بن نبیؒ (1905-1973)بیسویں صدی کے ایک ممتاز مفکر، مایہ ناز مصنف اورگوہر یگانہ ر فلسفی تھے جنھوںنے نہ صرف فکر اسلامی میـں اہم خدمات انجام دیں بلکہ اس کو ایک نیا علمی منہج بھی عطا کیا ۔انھوں نے اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ مغربی فکر و فلسفہ کا گہرائی سے مطالعہ کیا ۔ اُمت مسلمہ کی تنزلی اور اوراس کے اسباب پر نیز عالم اسلام پر مغربی فکر و تہذیب اور اس کے غلبے اور یلغار پر گہرائی سے غور کر کیا اور اسے چھٹکارا پانے کی راہیں بھی بتائیں ۔ان کے افکار سے مشرق و یورپ میں طلبا و نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے استفادہ کیا ۔ ان نوجوانوں نے قرآن و سنت کے دائرہ میں رہ کرعقلی استدلال اور اپروچ کو استعمال کر کے درپیش چلینجز اور مسائل کا حل تلاش کیا ہے ۔ انھوں نے امت کو سکھایا ہے کہ کس طرح سے جدید دنیا کے افکار کے مثبت عناصر اور پہلووں کو اختیار کیا جاسکتا ہے اور کس طرح سے امت کو فاسد عناصر سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے ۔ انھوں نے امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونک کرمغربی فکر او راس کی استعمار ی سوچ کے ـخلاف نوجوانوں کو بیدار کرنے میںاہم رول ادا کیا ہے ۔ ان سے پہلے جزیرۃ العرب محمد بن عبدالوہابؒ(1703-1792)اور محمد علی السنوسیؒ (1787-1859)نے اُمت مسلمہ میں بیرونی اور اندرونی سازشوں اور چیلینجوںسے امت مسلمہ کو با خبر کرکے احیاء دین کا کام جاری رکھااور افریقہ( نائیجیریا)میں عثمان دان فادیو ((1754- 1817 نے نشاۃ ثانیہ کا کار خیر انجام دیا ۔ بیسویں صدی میں احیاء دین کے تعلق سے عرب دنیا میں محمد عبدہؒ،امام حسن البناءؒ (1906- 1948) اور سید قطبؒ((1906 -1966 نے امت مسلمہ کو خواب خرگوش سے بیدار کر کے اس میںایک نئی روـح پھونک دی ، بوسنیا ہرز گوینا میں علی عزت بیگویچؒ (1926-2003) نے نہ صرف استعمار کے خلاف جہاد کیا بلکہ مغربی فکر و تہذیب کا بھی ڈٹ کے مقابلہ کیا ۔مالک بن نبی اس سلسلۃ الذہب کی ایک اور کڑی ہے ۔
مالک بن نبیؒ الجزائر کے ایک مشہور شہر قسطنطنیہ میں جنوری ۱۹۰۵ء میں پیدا ہوئے ۔ بچپن میں ہی ان کے خاندان نے قسطنطنیہ سے بتہ(Bassa) نقل مکانی کی ۔ ا نھوں نے ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں حا صل کی اور قرآن مجید کی تعلیم شہر کے ایک قریبی مکتب میں حاصل کی ۔ ثانوی تعلیم کے سلسلے میں قسطنطنیہ کا رخـ کیا جہاں انھوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ ساتھ ممتاز اساتذہ سے علمی استفادہ بھی کیا ۔ مالک بن نبی بچپن ہی سے نہایت ذہین و فطین تھے اور علم و تعلیم اور مطالعہ کے بے حد شوقین تھے ۔ انہیں شعر و شاعری سے خصوصی لگاو تھا اسی لئے ایام طفولیت ہی سے امر و القیس ، عنترہ ، فرزدق ، اخطل ،حاٖفظ ابراہیم ، خلیل جبران وغیرہ کی شاعری کا مطالعہ کرتے تھے ۔ اسی عرصے میں جمعیۃ العلماء المسلمین کے صدر الجزائر کے صدر شیخ عبدلحمید البادیس ؒسے تعلق قائم کیا اور ان سے بے حد متاثر ہوئے ۔ اعلیٰ تعلیم کی غرض سے ۱۹۳۰ ء میں فرانس گئے اور سب سے پہلے Centre of Oriental Studies میں داخلہ لینا چاہا لیکن اس میں کامیابی نہیں ملی ۔ اس کے بعد انھوں نے ایک ٹکنکل انسٹی ٹیوٹ میںداخلہ لے لیا جہاں انھوں نے انجینئرنگ کی تعلیم ـحاصل کی اسی دوران انھوں نے ایک فرانسیسی نومسلمہ سے شادی بھی کی ،۱۹۳۱ ء میں Muslim students Association of North Africa کے نائب صدر بھی منتخب ہوئے ۔ اس کے علاوہ متعدد فلاحی اداروں اور اصلاحی تنطیموں کے ساتھ وابستہ رہے ۔ جنگ عظیم دوم کے دوران انہیںبادل ناخواستہ جرمنی تلاش روزگار کے سلسلے میں نکلنا پڑا جہاں انھوں نے تاریخی کتاب ’’ الظاہرۃ القرانیۃ ‘‘ لکھ ڈالی ۔جو الجیریا سے پہلی بار ۱۹۴۶ ء میں شائع ہوئی ۔اور یہاں سے ان کے تصنیفی کیرئیر کا آغاز ہوا ۔ ۱۹۳۵ میں انجئینرکی حیثیت سے واپس آگئے ۔ اس کے بعد انھوں نے قاہرہ میں بھی قیام کیا ، اور وہاں کچھ عرصے تک ایک شرعی عدالت میں معاون آفیسر کی حییثت سے کام کیا ۔ آپ نے الجزائر پر فرانس کے جبری قبضے پر فرنچ حکومت کے خلاف فکری محاز پر جہاد کیا ۱۹۵۷ء میں فرانس کے ظلم و تشدد اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف ایک کتاب لکھی ا اس کے علاوہ جنگ آذادی میں عملی شرکت بھی کی ۔ الجزائر کی آزادی کے بعد ۱۹۶۳ ء میں وطن عزیز لوٹ آئے اور وہاں پہلے Center for Cultural Orientation پھرٹکینکل ہائر ایجوکیشن کے شعبہ میـں ڈائرکٹر منتخب ہوئے اور اس محکمہ میں کئی اہم کارنامے انجام دئیے ۔ مالک بن نبی ایک نظریہ ساز مفکر (Visionary)تھے۔ٹکینکل ہائر ایجوکیشن ان کے لئے ایک محدود دائرہ کار تھا اسی لئے ۱۹۶۷ء میں اس محکمہ کو خیر باد کہا اپنا پورا وقت فکر اسلامی کی آبیاری کرنے اور تصنیف و تالیف میں صرف کیا ۔اس کے علاوہ عالم اسلام کی کئی جگہوںپر ان کے لکچرس کا اہتمام ہوتا تھا ۔ بالآخر یہ مایہ ناز اور ہر دل عزیزمفکر ۳۱ اکتوبر ۱۹۷۳ ء میں خالق حقیقی سے جاملے ۔ انا للہ الیہ و انا الیہ راجعون ۔
تصانیف :
مالک بن نبیؒ کو عربی اور فرانسیسی زبان پر زبردست عبور حاصل تھا ان کے علاوہ انگریزی پر بھی اچھی مہارت حـاصل تھی ۔ انھوں نے فرانسیسی اور اور عربی زبان کو ذریعہ گفتگو بنایا ۔ پہلے انھوں نے فرانسیسی زبان میں نگارشات تحریر کیں پھر انھوں نے عربی زبان کو تحریر کا ذریعہ بنایا ۔ ان کی تصانیف کی تعداد ۳۰ سے زیادہ ہیں : چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں :
(۱) الظاہرۃ القرانیۃ (۲)شروط النھضۃ( ۳) وجھۃ العالم الاسلامی (فکرۃ الافریقیۃ الاسیویہ (۵) الصراع الفکری فی البلد المستعمرہ (۶) مشکلۃ الافکار فی العالم الاسلامی (۷) انتاج المستشرقین و اثرہ فی الفکر الاسلامی الحدیث (۸) حدیث فی البناء الجدید (۹) فی مھب المعرکۃ(۰!) المسلم فی العالم الاقتصاد
ان کے علاوہ فرانسیسی زبان مین میں ان کی ۱۲ کتابیں موجود ہیں یہ سبھی کتابیں انگریزی زبان مین ترجمعہ ہوکر شائع ہوچکی ہیں ۔
افکار و نظریات :
مالک بن نبی ؒایک فکر ساز رہنما ء تھے ان کی فکرالجزائر کے سرحدوں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ان کی فکر کا دائرہ کار پورا عالم اسلام تھا ۔ سامراجی نظام اور اور اس کے تسلط سے عالم اسلام کو کیسے چھٹکارا ملے یہ ان کی تحریروں کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ ان کے مطابق عالم اسلام کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنا اور پھر قبضہ جمانا سامراجی طاقتوں کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ قصور وار تو ہم ہیں کیوں کہ ہمیں سامراج کو قبول کرنے کا مرض لاحق ہوچکا ہے وہ ’’شروط النھضۃ‘‘ میں برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر ہم میں سامراج اور استعماری قوتوں کو قبول کرنے کا مرض نہ ہوتا تو سامراج نہ ہم پر کبھی مسلط ہوتا اور نہ ہم پر اثر انداز ہوتا ۔
دوسروں کے بتائے ہوئے راستوں سے امت مسلمہ ہمیشہ گمراہی کی شکار ہوئی ہمیں باہر سے ماڈل تلاش نہیں کرنا چاہیں بلکہ ان پرانے بھولے اصولوں کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے جن سے امت مسلمہ پہچانی جاتی ہے اور ان ہی اصولوں سے امت مسلمہ کو دنیا میں ایک منفرد شناخت قائم ہے ۔ امت کی بیرونی تہذیبں ہمیں نیا تحریک دے سکتی ہے لیکن کوئی غیر اسلامی چیز اسلام کے مکمل نمونے کا بدل نہیں بن سکتی ۔مالک بن نبی کا کہنا ہے کہ’’ کسی کے لئے یہ جائزنہیں ہے کہ ایسے حل اور مناہج پیش کرے جو امت کی تاریخ سے میل نہیں نہیں کھاتے ہوں ۔ہر حل امت کے افکار اور خواہشات اور ماضی اور حال کی ضروریات کے ساتھ منجسم ہونا چاہیے ۔مشرق اور مغرب سے حل درآمد کرنا نہ صرف بے سود کوشش ہے بلکہ اس سے مرــض کے مزید بڑھنے کا خطرہ ہے ۔ دوسروں کی تقلید نہ صرف جہالت بلکہ خود کشی کے مترادف ہے ۔ ‘‘ان کی یہ بات کافی اہمیت کی حامل ہے کہ ہمیں اپنا ذاتی تجربہ حاصل کرنا چاہئے اور ہمیں اپنے دائرہ فکر و عمل کا تعین خود کرنا چائیے نہ کہ کسی اور کی طرف سے ہمارے لئے متعین کیا جائے ۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جو معاشرہ اپنے بنیادی افکار خود وضع نہیںکرتا وہ نہ تو ضروریات زندگی کی اشیا ء تیار کرسکتا ہے اور نہ صنعت کاری کے لئے لازمی مصنوعات ۔ ان کی یہ بات بھی قابل غورہے کہ دوسروں کے اخذ کردہ افکار سے نہ صرف معاشرہ تعمیر نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ برآمد شدہ افکار سے قلوب و اذہان بھی مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں ۔اسی لیے وہ کہتے ہیں :
"A Sociaty will never build itself by imported ideas or by ideas imosed on it from out side "
اسلام بطور حل :
نوع انسانیت کے لئے اسلام ایک عظیم نعمت ہے اس کی سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ یہ کسی انسان کا تخلیق کردہ مذہب نہیں ہے بلکہ یہ اس کائینات کے خالق کا بھیجا ہوا دین ہے جو نوع انسانیت کے لئے حقیقی نجات دہندہ ہے ۔ اس دین نے آغاز ہی سے انسانی مسائل کی طرف خصوصی توجہ دی اور عصر حاضر میں بھی یہ انسانی مسائل کے حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔دور حاضر میں اسلام کو عالم انساینت کیلئے حل اور مداوا کے طور پر پیش کرنے کے سلسلے میں چند نمایا ں مفکرین نے عمدہ پیش رفت کی جن میں مولانا مودودی ؒاور سید قطب ؒبطور خاص قابل ذکر ہیں۔ان ہی کے ہم عصر مالک بن نبی ؒہیں جنھوں نے اسلامی فکر و تہذیب کو متبادل کے طور پر پیش کیا ۔ان کا ماننا ہے کہ اسلامی فکر تہذیب ہی ایک ایسی وحدت ہے جو دنیا کو فساد سے محفوظ رکھ سکتی ہے اور یہ نہ صرف ہر مرض کی دوا ہے بلکہ ہر مسئلہ کا حل بھی فراہم کرتا ہے۔ چناچہ وہ لکھتے ہیں :
"There is an islamic slution to every probleb .Islam answers the need of all and sundry , and it contains a panacea for the ills of humanity "
اسلامی اور مغربی تہذیب کا موازنہ :
مالک بن نبی نے تہذیب کو بھی تحقیق کا موضوع بنایا اور اور اس تعلق سے انھوں نے نمایاں رول ادا کیا ۔ تہذیب کو انھوں نے دو قسموں میں تقسیم کیا ہے ۔ ایک وہ تہذیب ہے جس کی بنیادیں مادیت میں پیوست ہیں ۔اس کو وہ culture d empire کہتے ہیں تہذیب کی دوسری قسم وہ ہے جس کی بنیادیں اخلاقی اقدار اور مابعد الطبعیات سے جا ملتی ہیں ۔اس کا نام انھوں نے culture de civilisation کا نام رکھا ہے ۔ ان کے مطابق انبیاء کرام دنیائے انسانیت کے حقیقی پیغام لے کر مبعوث ہوئے اور انھوں نے جس تہذیب کی بنیاد رکھی وہ اخلاقی اقدار سے مزین ہے ۔ان کاکہنا ہے کہ مذہب ایک ایسی چیز ہے جو تہذیب کو بنیاد فراہم کرتا ہے بلکہ توانا بھی کرتا ہے اور یہی تہذیب انسان کو اخلاقی اقدار کا شعور فراہم کرتا ہے ۔ انھوں نے مغربی فکر و تہذیب کا تنقیدی جائزہ بھی لیا اور اس کو نوع انسانیت کے لئے سم قاتل قرار دیا کیوں یہ رومانوی فکر و تہذیب کی بنیادوں اور اصولوں پر قائم و دائم ہے اور یہ خالص مادہ پرستی کی نمائندگی کرتا ہے اس کے برعکس اسلامی تہذیب عقیدہ توحید پر قائم ہے جو غیبی حقائق اور ماوراء الطبعیات جیسے تصورات کو جنم دیتا ہے ۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :
’’خیار العالم الغربی ذی الصول الرومانیۃ الوثنیۃ قد جنح بصرہ الیٰ ماحولہ ممایحیظہ بہ : نحوالاشیاء ۔ بینما الحضارۃ الاسلامیۃ عقیدۃ التوحید المتصل باالرسل قبلھا ، سبح خیارھا نحو التطلعالغیبی وما وراء الطبیعۃ : نحو الافکار‘‘ (مشکلۃ الافکار فی العالم الاسلامی، مالک بن نبی ، دارالفکر المعاصر بیروت : ص: ۷)
انھوں نے افکار کی تجدید کاری پر بھی زور دیا اور کہا کہ’’ صرف مادی ایشاء کی جدت کاری قابل قدر اقدام نہیں بلکہ افکار کی بنیادی تجدید لازمی ہے تاکہ وہ کمی پوری ہوسکے جو بھیانک اور شرمناک شکست کا سبب بن سکتی ہے ۔اس لئے زندہ افکار ہی سے انسان بڑے بڑے معرکے سر کرتا ہے ۔ـ‘‘ تہذیب کی جو فکری بنیادیں ہیںوہ صرف اسلام میں ہیں اور یہ کسی بھی زمانہ میں کسی بھی فکر و تہذیب کو متاثر کر سکتی ہے۔ مالک بن نبی ؒ کے نزدیک اسلامی تہذیب کی ان فکری بنیادوں کی پاسداری مسلمانوں نے نہیں کی۔ اس تعلق سے اہل جاپان کے عزم و حوصلہ کو داد دیتا ہے کہ انھوں نے مغربی فکر و تہذیب کو ہر اعتبار سے رد کر کے اپنی فکر و تہذیب ، تاریخ اور روایات، تعلیم اور تمدن کو مرجع و محوربنایا۔ اور وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں مغربی فکر و تہذیب سے مرعوب نہیں ہوئے اسی لیے آج دنیا میں ان کی خود مختار تہذیب دنیا کی بڑی بڑی تہذیبوں کو متاثر کر رہی ہے ۔
اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ کو قبول کرے اور اُمت کو ان جیسے مفکر عطا فرمائے ۔ آمین
فون نمبر9045105059