انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے جون ۶۱۰۲ء سے اپریل ۸۱۰۲ء کے دوران ’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر مبنی رپورٹ‘ ۴۱جون ۸۱۰۲ء کو جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی گرافک دستاویزات شامل ہیں۔ یہ دستاویز بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے خلاف سنگین مظالم پر بین الاقوامی ردعمل اور افسوس ناک حقائق کو تسلیم کرنے اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس رپورٹ میں انسانیت کے خلاف بھارتی جرائم پر رازداری کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ اْمید ہے کہ اب عالمی برادری کشمیر کے عوام کا دْکھ درد محسوس کرے گی۔
اس رپورٹ میں مخصوص واقعات کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے، جن میں بھارتی حکومت، کشمیر کے عوام کے خلاف، انسانیت کے بہت سارے اصولوں اور جمہوری آزادی کے تسلیم شدہ ضابطوں کی خلاف ورزی کرتی نظر آتی ہے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ:’’جولائی۶۱۰۲ء میں شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کے جواب میں، بھارتی مسلح افواج نے انتہائی طاقت کا استعمال کیا،جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور بہت زیادہ لوگوں کو زخمی کیا گیا۔ اس وحشیانہ پن کی وجہ مظاہرین کے خلاف استعمال ہونے والا سب سے خطرناک ہتھیار وہ شاٹ گن ہے، جس نے ہزاروں افراد اور بچوں کی آنکھیں ، جستی چھروں (pellets) سے ہمیشہ کے لیے ضائع کر ڈالیں۔
رپورٹ میں درج بہت سی مثالیں بتاتی ہیں کہ ظالمانہ قوانین کے استعمال نے بھارتی فوج کی انسانی حس کو ختم کرکے رکھ دیا ہے: ’’بھارتی حکومت نے ۰۹۹۱ء میں جموں و کشمیر کے مضطرب علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے قانون بنایا، جس میں بھارتی فوجی اور نیم فوجی فورسز کو غیرمعمولی قوت اور اختیار فراہم کیا گیا ہے‘‘۔ ان قوانین کا تشکیل پانا اور ان کا نفاذ، قانون کی عمل داری اور احتساب کو روکتا ہے اور انسانی حقوق کی بے پناہ خلاف ورزیوں کو پروان چڑھاتا ہے اور متاثرین کے لیے علاج اور حق انسانیت کو خطرے میں ڈالتا ہے‘‘۔
رپورٹ نے متوجہ کیا ہے کہ ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور حصولِ انصاف تک مظلوموں کی رسائی کے راستے میں رکاوٹوں نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کو زبردست چیلنج بنا دیا ہے‘‘۔اور یہ کہ ’’کشمیر میں ان ضابطوں کے نفاذ کے باوجود تحریک چل رہی ہے۔ وادیِ کشمیر اور جموں میں بڑے پیمانے پر اجتماعی قبروں سے متعلق شکایات کی تحقیقات کی ضرورت ہے‘‘۔بہت سی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے تجویز کیا ہے کہ کشمیر، پوری دنیا میں سب سے بڑے فوجی ارتکاز کی حراست میں جکڑا ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ:’’سول سوسائٹی اور میڈیا اکثر ۵لاکھ سے ۷لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی کا حوالہ دیتے آئے ہیں، جس نے کشمیرکو دنیا کا سب سے بڑا جنگی زون بنا ڈالا ہے‘‘۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بغاوت کے اس تازہ ترین اْبھار (uprising)کے دوران، عملی طور پر کشمیر کی پوری آبادی سڑکوں اور گلیوں میں سر ہتھیلی پر رکھ کر احتجاج کر رہی ہے، تاکہ علاقے کے عوام کے حق خوداختیاری کے مطالبے کو منوا سکیں۔ رپورٹ اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے؛ ہندستانی زیر انتظام کشمیر نے ۰۸۹۱ کے عشرے کے آخر میں،۸۰۰۲ء اور پھر۰۱۰۲ء کے آغاز میں احتجاج کی زبردست لہروں کا نظارہ کیا ہے۔ ان مظاہروں میں دورِ ماضی سے کہیں زیادہ لوگ شامل رہے ہیں، اور پھر مظاہرین کی صف بندی (پروفائل) بھی بدل گئی ہے۔ ان میں زیادہ نوجوان، درمیانی طبقے کے کشمیری شامل ہیں۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر خواتین بھی احتجاجی تحریک میں شامل ہیں، جو ماضی میں شرکت نہیں کیا کرتی تھیں‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مذاکرات ناکام رہے ہیں کیوںکہ وہ مذاکرات کشمیرکی عوامی قیادت کو جو تنازعے کا بنیادی کردار ہیں، نظرانداز کرکے ہوتے رہے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرکے کہا گیا ہے کہ: ماضی میں اور پھر موجودہ زمانے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرقابو پانیاور کشمیر میں تمام لوگوں کے لیے انصاف فراہم کرنے کی فوری ضرورت ہے، جو سات عشروں پر پھیلے تنازعے میں کچلے جارہے ہیں۔ کشمیر میں سیاسی حل کو، تشدد کے آرے سے کاٹا اور احتساب کے خاتمے سے انجام دیا گیا ہے۔ گذشتہ طویل عرصے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل و غارت گری کا نشانہ بننے والے افراد کو بچانے کے لیے ایک مضبوط عزم کی ضرورت ہے۔ اس طرح کا ایک حل صرف اْس وقت بامعنی بن سکتا ہے کہ جب کشمیر کے لوگوں کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے۔
بھارتی انسانی حقوق کی تنظیموں اور این جی پی سمیت ’پیپلز یونین آف سول لبرٹیز‘ وغیرہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے کئی معتبر رضاکار محققین کو جموں و کشمیر میں بھیجا۔ بہت سی رپورٹوں میں تشدد اور ظلم کی تفصیلات شائع کیں، جو اکثر بھارتی سرکاری حکام کی زیادتیوں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ، ان رپورٹوں کے مندرجات کی توثیق اور تائید کرتی ہے۔ جیساکہ سول اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے پر ایک دستخط کنندہ ملک کے طور پر بھارت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی بھی حالت میں آرٹیکل ۷کے تحت بھارت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ کسی شخص کو’تشدد‘ پر مبنی ظالمانہ، غیر انسانی یا انتہائی سزا نہ دے، جب کہ کشمیر میں فورسز کی جانب سے تشدد کا مستقل ہتھکنڈا ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔
رپورٹ میں کالجوں کے اساتذہ اور مزدوری کرنے والے غریب اور نادار مزدوروں کو مارڈالنے کی متعدد مثالیں پیش کرنے کے علاوہ بتایا گیا ہے کہ طبی خدمات کے مراکز اور ایمبولینس واضح طور پر نشانہ بنائی جارہی ہیں۔ ایمبولینسوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مظاہرین کو لاتی ہیں،حالاں کہ وہ زخمیوں کی مدد کرتی ہیں، انھیں طبی مدد دینے کی کوشش کرتی ہیں، مگر فوجیوں کی فائرنگ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ واضح طور پر یہ ان نوجوانوں اور شہری آبادیوں کو جسمانی طور پر غیرفعال اور اپاہج بنانے کا ایک مقصد ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ:’’سرینگر میں ڈاکٹروں نے سکیورٹی فورسز پر ہسپتالوں کے قریب آنسو گیس پھینکنے اور فائرنگ کرنے کا الزام لگایا ہے اور بعض صورتوں میں، ہسپتال کے اندر گھس کر بھی وہ یہ زیادتی کرتی ہیں، جس نے ڈاکٹروں میں ذمہ داری ادا کرنے کی صلاحیت کو زبردست متاثر کیا اور مریضوں کی صحت اور زندگی کو مزید خطرات سے دوچار کیا ہے‘‘۔
اس دوران بین الاقوامی کمیونٹی کی توجہ حاصل کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔ عالمی قوتوں نے بھارت سے اس زیادتی کے بارے میں پوچھنے کی زحمت سے ہاتھ کھینچ رکھا ہے۔دوسری طرف، بھارت، کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکنان کو بین الاقوامی فورموں پر انسانی حقوق کے موضوع پر بات کرنے کے لیے نہیں جانے دیتا۔رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں نے جب بھی جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر بین الاقوامی توجہ دلانے کی کوشش کی تو انہیں سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ کچھ صحافیوں کی رسائی تک روک دی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے ایک محافظ خرم پرویز کو ۵ا ستمبر۲۰۱۶ء کو جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے سامنے پیش ہونے سے روکنے کے لیے پی ایس اے کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ پھر انسانی حقوق کے علَم بردار وکیل کارٹک مرکوٹلا، جو خرم پرویز کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں، انھیں ۲۴ستمبر ۲۰۱۶ء نئی دہلی کے ہوائی اڈے سے گرفتار کرلیا کہ وہ جنیوا کیوں گئے تھے؟ اسی طرح فرانسیسی صحافیوں اور دستاویزی فلم ساز پولس کمیٹی کو ۹ دسمبر۲۰۱۷ء کو سرینگر میں گرفتار کیا گیا۔
اس چیز کے اچھے خاصے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ بھارت کے خونیں قبضے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دوران، خاص طور پر خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بات سخت تکلیف دہ ، شرم ناک اور ناقابلِ قبول ہے کہ خواتین کی عزت و حرمت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ:۲۰۱۳میں بھارت کے مشن پر خصوصی رپورٹر نے، خواتین کے خلاف تشدد اور اس کی وجوہ اور نتائج کے بارے میں کہا تھا:’’جموں و کشمیر اور شمال مشرقی ریاستیں سخت محاصرے اور مسلسل نگرانی کی حالت میں رہتی ہیں، چاہے یہ لوگ گھروں میں ہوں یا باہر۔ تحریری اور زبانی ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق ریاستی سیکورٹی فورسز نے افراد کو لاپتہ کرنے والی کارروائیوں، قتل اور تشدد اور اجتماعی عصمت دری جیسے عمل کو مقامی باشندوں کو دھمکانے اور محکوم بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل نے سفارش کی ہے:’’کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی جامع بین الاقوامی تحقیقات کرنے کے لیے انکوائری کمیشن کا قیام اور اس رپورٹ کے نتائج پر غور کیا جائے‘‘۔رپورٹ میں بھارتی حکومت کو ۱۷؍ سفارشات دی گئی ہیں تاکہ ان مظالم کو ختم کیا جاسکے: ان میں یہ مدات کاص طور قابل ذکر ہیں:٭ فوری طور پر مسلح افواج (جموں و کشمیر) کے خصوصی اختیارات کے ایکٹ ۱۹۹۰ء کو منسوخ کیا جائے۔ ٭جولائی۲۰۱۶ء سے لے کر تمام شہری ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے آزاد، غیر جانب دار اور قابل اعتماد تحقیقات کی جائیں۔٭بین الاقوامی قانون کے تحت کشمیر کے لوگوں کو حق خود اختیاریت دیا جائے۔
رپورٹ میں اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ: ’اقوام متحدہ کی رپورٹ‘ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے ارکان اور پالیسی سازوں کو متحرک کرے گی جو کشمیر میں بہیمانہ قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے اپنی قانونی طاقت سے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ رکن ممالک کے پالیسی سازوں کو مسئلے کی بنیادی وجہ کو سمجھنے کے لیے حقائق کو دیکھنا چاہیے۔ حق خود اختیاری کے ناقابلِ تنسیخ وعدے کے طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ضمانت فراہم کرتی ہیں‘۔ہمیں یقین ہے کہ ہم کشمیری، کشمیر میں اس کی تقدیر کے تحفظ کے لیے، جو کہ ایک شان دار تاریخ رکھتی ہے، اسے صدمات کے منجدھار سے نکالنے کے لیے اپنی تمام توانائی، حکمت اور عزم و ہمت سے کام لیں گے۔
(انگریزی سے ترجمہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭