ڈاکٹر سر محمد اقبال 9 نومبر 1877کو پیدا ہوئے۔علامہ اقبال بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر،انقلابی مصنف اور شاہین صفت شخصیت تھے جن کی اہمیت اور مقبولیت آج بھی قائم ودائم ہے۔اردو کے علاوہ اقبال نے فارسی شاعری میں بھی طبع آزمائی کی ۔انگریزی میں The reconstruction of religious thought in Islam نامی کتاب انکی ایک شاہ کار اور عظیم تصنیف مانی جاتی ہے۔ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے یورپ کا سفر طے کیا۔وہاں اپنی بلند فکراور بالغ نظر سے یورپ کے نظام زندگی، پتہذیب وثقافت اور نظام تعلیم کا خوب تجزیہ کیا اور شعروکلام کی شکل میں ہمارے سامنے اس کا حسن وقبح رکھ دیا۔اگر علامہ کو مفکر ومصلح کے ساتھ ساتھ ایک عظیم سیاست دان بھی کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگاکیونکہ نظریہ پاکستان کی تاسیس میں اُن کا اہم رول رہا ہے۔علامہ اقبال کے بیش بہا قیمتی شعری پیغامات کی بنیادقرآن وسیرت پاکؐ پرا ستوار ہے اور اسی مناسبت سے ان میں انسانیت کا درد و سوز تھا اورآپ انسانیت کو تباہی و بربادی سے بچانا چاہتے تھے۔اقبال خاص کر یہ دیکھ رہے تھے کہ امت مسلمہ کے نوجوان کس طرح اپنے مقصد سے دور ہورہے ہیں اور زمانے کا باطل کس طرح مسلمان طالب علموں سے ان کا نظریۂ حیات ، ان کی سوچ،ان کی تہذیب،ان کے دینی اقدار چھینے جارہے ہیں۔وہ نوجوانوں کو اس دلدل سے باہر نکالا چاہتے تھے اور کے لئے اُنہوں نے اپنی آفاقی شاعری کا سہارا لیا۔
وہ جانتے تھے کہ اُمت مسلمہ کے کندھوں پر دعوت و تبلیغ،اقامت دین اور شہادت حق کی عظیم ذمہ داری ہے،مگر نوجوان نسل یہ بھول گئی ہے، اس لئے ان کی شناخت دن بہ دن ختم ہوتی جارہی ہے۔قومیت ، زبان ،تہذیب،مسلک ،ثقافت اور نہ جانے کن کن چیزوں سے اُنہیں گروہوں میں تقسیم کیا جارہا ہے ، المیہ یہ ہے کہ کچھ مال وصوفی اس کام میں باطل کا ہاتھ بٹارہے ہیں۔ مسلمانوں میں فحاشی،بدکاری اور عریانیت کے تمام حربے استعمال کئے جارہے ہیں تا کہ یہ ملت دین سے غافل ہو جائیں۔علامہ ان شاہین صفت نوجوان کو اسلام کی آغوش میں پروان چڑھتے دیکھناچاہتے ہی تاکہ ان کا ایمان خالص ، عمل صالح ، یقین پختہ ہواور وہ فرقہ واریت سے لاتعلق ہوکرناحق کے خلاف یکسو ہوں اور ملت ِ بیضا کو فروغ ملے ۔اقبال کا شاہین مغربی خیالات کی تقلید سے آزاد ہے کیونکہ مغرب کا نظام زندگی غیر اخلاقی بنیادوں پر استوار ہو ہے ۔وہ مغربیت کی یوں تنقید کر تے ہیں ؎
دیار مغرب کے رہنے والوںخدا کی بستی دکان نہیں ہے
کھرا جسے تم نے سمجھ رہے ہواب زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گاناپائدار ہوگا
علامہ چاہتے تھے کہ شاہین یعنی مسلم نوجوان اپنے اندر وہ بلندصفات پیدا کرے جو ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے میں معاون بن سکیں،جو اسے یقین محکم اور عمل پیہم کی خوبیوں سے سیراب کر ے، جو خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر دنیا کی امامت کا فریضہ انجام دیاور زمین کا بوجھ نہیں بلکہ دھرتی وآکاش کا اثاثہ بنے ۔
کلام اقبال میں شاہین یا مردمومن کو بلاوجہ ایک خاص مقام حاصل نہیں ہے۔ شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جس میں مرد مومن کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہے۔علامہ چاہتے تھے کہ مسلمان نوجوان کی نظر اور ارادے شاہین کی طرح بلندو بالا ہوں،اس میں اپنے مقصدزیست سے بے لوث محبت ہو،اس کی نگاہ تیز ہو،وہ آخرت کی کامیابی اور دنیا کی تعمیر وترقی کے نقش راہ پر کاربند ہو،وہ حلال رزق مہیا کرنے والاہو ؎
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
علامہ چاہتے تھے کہ مسلم نوجوان بندہ ٔ خداور متبع رحمت للعٰلمین ﷺبن کر جئے۔اسی تناظر میں آپ نے مغربی نظام زندگی و نظریہ ٔتعلیم کو زاغ وزغن سے تشبیہ دی ہے اور مسلمان نوجوان کو تاکید کی ہے کہ شاہین اور زاغ کے درمیان دوستی ناممکن ہے اور اگر تونے زاغ سے دوستی کی توتیری شا ہینی صفات تیری شخصیت سے غائب ہوجائے گی اورتو اپنے بنیادی اور الہامی مقاصد سے دور ہوجائے گا،تجھ میں حلال و حرام کی تمیز نہیں رہے گی ؎
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہین بچے کو صحبت زاغ
اس وقت اقبال کے شاہینوں کی پسپائی یااُمت محمدی ؐکی زبوں حالی اس کی اپنے مقصد ِ زندگی اور تصور فلاح سے دوری ہے ۔ یہی درد و کرب کسی نے اقبال کو مخاطب کر کے یوں کھینچا ہے ؎
اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا
ماضی تو سنہرا تھامگر حال کھو گیا
وہ رعب و دبدبہ،وہ جلال کھو گیا
وہ حسن بامثال وہ جمال کھو گیا
ڈوبے ہے جوابوں میںپر سوال کھو گیا
اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا
اُترے جو فضاؤں میں تھے شاہین،نہ رہے
باذوق نہ رہے ،ذہین نہ رہے
پاکیزہ گھر نہیں رہے ،بادین نہ رہے
وہ لال و گلزار،وہ مہ جبین نہ رہے
مومن کا وہ انداز باکمال کھوگیا
اقبال تیری قوم کا اقبال کھوگیا
………………………….
مضمون نگار گیارہویں جماعت
کا طالب علم ہے ۔
فون نمبر 9070885416…