دنیا کا واحد سپر پاور بری طرح افغان دلدل میں پھنسا ہوا نظر آتا ہے۔ظاہراََ یہی نظر آتا ہے کہ امریکہ کیلئے افغانستان میں نہ رُکنے کا مقام ہے نہ ہی چلنے کی راہ کہیں نظر آتی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ عیاں ہے کہ امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کا بیشتر حصہ نکلا نا چاہتا ہے لیکن ایک سپر پاور ہونے کے ناطے اُس کی انا آڑے آتی ہے ثانیاََ وہ کسی نہ کسی صورت میں اپنی موجودگی کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ افغانستان سے نکلنے کا جہاں تک تعلق ہے اُسے اِس ضمن میں پرکھنا چاہیے کہ امریکہ کیلئے کوئی ایسا امکاں نہیں بچا ہے کہ وہ افغان طالباں پہ اپنی فتح کا جشن منائے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ کو اپنی تاریخ کی سب سے بڑی نا کامی کا سامنا ہے۔امریکہ ویٹ نام کی جنگ میں بھی اپنے احداف کو پا نہ سکا لیکن 20ویں صدی کے ساتویں دَہے میں امریکہ کو ہنری کیسنجر جیسے شاطر ڈپلومیٹ کی خدمات میسر تھیں جس نے پیرس کی سفارتی کاوشوں میں امریکہ کو ایک ایسی دلدل سے نکالا جہاں وہ افغانستان کی مانند بری طر ح پھنس چکاتھا۔20ویں صدی میں امریکی احداف مختلف تھے ۔ صدی کے تقریباََ آخری دَہے تک امریکہ کو کمیونزم کو خطرے کا سامنا تھا ۔دنیا آج کی مانند واحد قطبی نہیں تھی یعنی امریکہ واحد سپر پاور نہیں تھا بلکہ سوؤیت یونین کے ہوتے ہوئے دو سپر پاور عالمی اجارہ داری کیلئے ایک دوسرے سے بنرد آزما تھے۔
عالمی شطرنج پہ دو سپر پاور جنگ عظیم دوم کے بعد اُبھر آئے۔ اِس جنگ کے اختتام پہ یورپ کے آر پار جرمنی کے قلب کو چیرتے ہوئے ایک جیو سڑ ٹیجک لکیر کھنچی گئی جس کو آھنی پردے (Iron Curtain)کا عنواں دیا گیا۔ جرمنی کے شہر پوٹس ڈیم (Potsdam ) میں تین بڑے عالمی رہبروں امریکی صدر ہیری ٹرومین(Harry Truman) سوؤیت یونین کے رہبر جوزف سٹالین (Joseph Stalin) اور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل(Winston Churchill) 17 جولائی1945, سے لے کے2 اگست تک ملے تاکہ جنگ کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لیا جا سکے۔26جولائی کے بعد ونسٹن چرچل کی جگہ کلیمنٹ اٹیلی (Clement Attlee)نے لے لی چونکہ وہ چرچل کی جگہ وزیر اعظم منتخب ہو چکے تھے۔ آھنی پردہ مغربی اور مشرقی برلن کے بیچ کی وہ دیوار تھی جس کے ایک طرف سوؤیت یونین کی افواج تھیں اور دوسری طرف اتحادی فورسز کے وہ دستے جو بیشتر امریکہ،برطانیہ اور مغربی یورپ کے دوسرے اتحادیوں پہ مشتمل تھے۔سوؤیت یونین کے اتحادی مشرقی یورپ کے ممالک تھے جن پہ سوؤیت یونین قابض ہو چکا تھا۔یہ کمیو نسٹ بلاک بن گیا اور دوسری طرف امریکہ اور اُس کے اُن اتحادیوں کا بلاک بن گیا جو مغربی یورپ سے تعلق رکھتے تھے۔یہ سرمایہ دارانہ ((Capitalistic) بلاک کہلوایا چونکہ اِن ممالک کا اقتصادی نظام سرمایے پہ مبنی تھا۔ سرمایے پہ اقتصادی نظام کی بنیاد رکھنے کی تلقین ایڈم سمتھ (Adam Smith) کی تھیوری مانی جاتی ہے جبکہ کمیو نسٹ بلاک کا اقتصادی تصور کارل مارکس(Karl Marx) کا مرہون منت تھے۔دنیا اِن دو نظریات ے بیچ بٹ گئی ۔ کارل مارکس کے تصور میں نجی سرمایہ کاری کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور اقتصاد کاملاََ ریاست یعنی سٹیٹ کے ہاتھوں میں رہنے کی تلقین تھی۔
کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ (Capitalist) بلاک کبھی کوریا میں کبھی ویٹ نام میں اُلجھے رہے ۔یورپ میں جہاں امریکہ کی رہبری میں سرمایہ دارانہ بلاک کی افواج نیٹو (NATO) کی کمان میں تھیں وہی کمیونسٹ بلاک کی افواج وارسا (WARSAW)کی کمان میں آھنی پردے کے آر پاردو قطبی دنیا کی نشاندہی کرتی رہیں۔ اِسے تاریخ میں سرد جنگ (Cold War) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے لیکن جنگ جہاں یورپ میں سرد تھی وہی آتشیں اسلحہ ایشیائی ممالک میں رواں دواں تھا اور دونوں بلاک تیسری دنیا کے افرو ایشائی اور لاطینی امریکہ کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی سعی کر رہے تھا۔عالم اسلام یعنی مغربی ایشیا میں کہیں مصر کے کرنل ناصر کی رہبری میں عربی نیشنلزم کے نعرے بلند ہو رہے تھے اور کہیں حزب بعث عراق و شام میں کارل مارکس کے کمیونسٹ نظریے کے قریب نظر آتی تھیں۔خلیج کے شیوخ نے موروثی بادشاہتیں قائم کی ہوئی تھیںاور امریکہ کے سرمایہ دارانہ بلاک میں اپنی عافیت تلاش کر رہی تھے۔سنٹرل ایشیائی ممالک قازکستان،قرگزستان،آزربائجان،ازبکستان،تاجکستان اور ترکمنستان کمیونسٹ بلاک کے نرغے میں اِس حد تک آ چکے تھے کہ دنیا بھول چکی تھی کہ یہ مسلم آبادی والے ممالک ہیں۔سنٹرل ایشیا ئی ممالک زمینی قفل بندی کا شکار رہے ہیں جنہیں لغت انگلیسی میں (Landlocked)کہا جاتا ہے۔اُن کی عالمی تجارت کا محور کمیونسٹ بلاک ہی تھااور بیرونی دنیا سے اُنکا رابطہ روسی ساحلوں سے ہوتا تھا جبکہ روس کی مشکل بھی یہی تھیں کہ سخت سردی کی وجہ سے اُن کے ساحل یخ بستہ رہتے تھے۔گرم پانی تک سوؤیت یونین جس میں سنٹرل ایشائی ممالک بھی شامل تھے کی عدم رسائی انجام کار افغانستان پہ حملے کا محرک بنی اور یہی سے یہ ملک میدان جنگ بن گیااور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
تاریخ میں کئی ملکوں نے افغانوں کو زیر کرنے کی سعی کی ہے لیکن کوئی ملک اپنی مہم جوئی میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ماضی میں برطانیہ نے بھی ناکام کوششوں کے بعدافغانستان کو اپنے حال پہ چھوڑا۔گذشتہ صدی میںسوؤیت یونین نے 1979ء میں افغانستان میں مداخلت تھی ۔اُس سے پہلے وہاں ایک کمیونسٹ حمایتی رژیم کو بس سر اقتدار لایا گیا تاکہ مداخلت کا جواز میسر ہو سکے لیکن کوریا اور ویٹ نام کی مانند یہاں بھی عالم اجارہ داری کی مہم جوئی میں امریکہ سوؤیت یونین کے آڑے آیا۔افغانستان میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑا محافظ امریکہ اسلام کا سائن بورڑ لے کے سامنے آیا ۔عالم اسلام کے جہادی عناصر افغانستان میں سوؤیت یونین کے عظائم کو شکست دینے کیلئے جمع ہوئے اور ایسے میں جہادی عناصر کو ڈھال بنا امریکہ دو قطبی عالم کو واحد قطبی بنانے کی راہ ہموار کرتا رہا۔ پاکستان کے صدر ضیا الحق نے امریکہ کا بھر پور ساتھ دیا چونکہ تصور یہی رہا کہ امریکی احداف اور افغانستان سے سوؤیت یونین کے انخلا کا اسلامی حدف ایک ہی ہے اگرچہ پیش منظر کے امکانات کے بارے میں نظریات مختلف ہو سکتے ہیں۔اختلاف نظر بعد میں ایک حقیقت بن گئی بلکہ آج بھی اختلافات کا سلسلہ جاری ہے البتہ افغان جنگ کے پہلے مرحلے میں سوؤیت یونین کو نہ صرف ہزیمت اٹھانی پڑی بلکہ مختلف قومیتوں کا یہ سنگم ہی بکھر گیا۔سنٹرل ایشیا سے مشرقی یورپ تک پھیلی ہوئی مملکت صرف و صرف روس بن کے رہ گئی۔سنٹرل ایشیا کے مسلم ممالک آزاد ہوئے لیکن سچ تو یہ ہے کہ کم و بیش تین دَہائیںگذرنے کے بعد بھی اِن ممالک میں روسی کلچر کی چھاپ نظر آتی ہے جہاں رشید،رشیدوف کہلاتا ہے اور ایاز، ایازوف! ابھی بھی یہ ممالک سفارتی دائرے میں روس کی طرف دیکھتے ہیں ۔
افغان جنگ کا پہلا مرحلہ طالبان کے بر سر اقتدار آنے پہ ختم ہوا۔ افغان طالبان نے پہلے سے جمے ہوئے کئی سیاسی و فوجی گروہ زیر کر لئے جن میں حکمت یار کی جماعت اور شمالی الائنس کو گنا جا سکتا ہے ۔شمالی الائنس میں تاجک شامل تھے۔ افغان طالبان کو پاکستان کی پشت پناہی حاصل رہی اور 1947ء میں معرض وجود میں آنے کے بعد پاکستان کو پہلی دفعہ اپنے مغربی محاز پہ راحت کی سانس لینے کا موقعہ فراہم ہوا ۔پاکستان کو جس دفاعی گہرائی کی تلاش تھی وہ افغان طالبان کے بر سر اقتدار آنے سے فراہم ہوئی لیکن شومئی قسمت 9/11کے بعد پانسہ پلٹ گیا۔افغان طالبان کو چونکہ القائدہ کا حامی مانا گیا اسلئے امریکہ نے پاکستان کو یہ دھمکی دی کہ اگر ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو مخالف سمجھا جائے گا۔یہ دھمکی امریکہ کے وزیر خارجہ کولن پاول نے پاکستانی صدر پرویز مشرف کو ایک ٹیلفونی رابطے میں دی۔بہ دل نخواستہ پاکستان نے افغانستان پہ امریکی حملے کیلئے راہداری فراہم کی جو اَس پہ منتج ہوا کہ جہادی دستوں نے پاکستان کو امریکی حلیف ماننا شروع کیا۔جہادی دستے جن میں پاکستانی طالبان پیش پیش تھے پاکستان میں دہشت گرد انہ کاروائیوں میں ملوث رہے۔اِن کاروائیوں میں ہزاروں جانیں تلف ہوئیں وسیع پیمانے پہ املاک کا نقصان ہوا اور معیشت بکھر گئی ۔
پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان دوسروں کی جنگ لڑنے کا مرتکب ہوا اور آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ عمران جب اپوزیشن لیڈر تھے تب بھی اُنکا یہی ماننا تھا اور اِسی تکرار سے وہ طالبان خان کہلوائے۔ پاکستان کا یہ ماننا ہے کہ دہشت گردی میں بے پناہ نقصانات اٹھانے کے باوجود اُسے دہشت گردی میں ملوث ملک مانا جاتا ہے حتّی کہ پاکستان کو عالمی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ اُس پہ دہشت گردی کی فنڈنگ کے سلسلے میں نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ایک طرف یہ صورت حال ہے دوسری طرف یہ کہ پاکستان کو مسلسل ڈو مور کرنے کیلئے کہا جا رہا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ دہشت گردی کے خلاف وہ جو جو کچھ بھی کر رہا ہے اُس میں تیزی لائے۔ پاکستان میں کئی سیاسی حلقوں کا ماننا ہے کہ امریکہ اپنی جنگ پاکستان سے لڑوانا چاہتا ہے۔امریکہ میں عام تاثر یہی ہے کہ افغان طالبان نہ صرف پاکستان کے زیر اثر ہے بلکہ طالبان کا فوجی کیمپ پاکستان میں ہی ہے۔حقانی گروپ کو سب سے شدت پسند گروہ مانا جا ہے۔پاکستان کا ماننا ہے کہ کم و بیش 60فیصد افغان اراضی طالبان کے کنٹرول میں ہے لہذا اپنا فوجی کیمپ پاکستان میں رکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ثانیاََ بیس لاکھ افغان مہاجرین میں طالبان کے حامیوں کی تلاش کوئی آساں کام نہیںثالثاََ پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کسی فردیا گروہ کی نشاندہی کی جائے تو وہ اُسے نبٹنے کیلئے تیار ہے۔پاکستان پر امریکی دباؤ و تقاضات کس حد تک جائز ہیںاور پاکستان کے دعوؤں پہ کس حد تک اعتبار کیا جا کتا ہے اُس سے صرفنظر کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ افغانستان کی صورت حال سے عاجز آ چکا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوراں تمام امریکی افواج کی وطن واپسی کا عندیہ دیا لیکن صدر بننے کے بعد اُنہیں دفاعی صلاح کاروں نے افغان مہم جاری رکھنے کا مشورہ دیا چناچہ 4000مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجے گئے لیکن نتیجہ وہی رہا جو پہلے تھا ۔نہ ہی امریکی فوج افغان طالبان کو روک سکی اور نہ ہی افغان حکومت کی امریکی تربیت یافتہ فوج اور اِس بیچ صدر ٹرمپ پاکستان کو مختلف بیانات میں اور ٹیوٹر پر جس حد تک بھی ممکن ہوا برا بھلا کہتے رہے۔مالی امداد بھی بند کی گئی جو پاکستان کو دہشت گرد کاروائیوں سے نبٹنے کیلئے دی جاتی تھی۔تھک ہار کے آخر امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کی ٹھانی اور اور مذاکرات کے کئی دور قطر میں انجام بھی پائے لیکن طالبان کا اصرار امریکہ کے مکمل فوجی انخلا پہ ہے جبکہ امریکہ افغانستان کے حالات پہ اپنی چھاپ قائم رکھنا چاہتا ہے۔
امریکہ اپنی سفارتی مہم میں نئے مہرے سامنے لا رہا ہے۔ افغانستان میں امریکہ کے بش انتظامیہ کے دوراں سابق سفیر زلمے خلیل زاد کی خدمات ٹرمپ انتظامیہ نے حاصل کی ہیں۔ زلمے خلیل زاد افغان نژاد امریکی شہری اور امریکہ کے پالیسی ساز اداروں میں ایک اہم نام ہے۔زلمے خلیل زاد کو افغان امور میں ٹرمپ کے صلاح کار کا عہدہ دیا گیا ہے اور وہ آج کل سنٹرل ایشیائی ممالک، افغانستان اور پاکستان سے رابطہ کاری میں مصروف ہیں۔قطر کے دارلخلافہ،دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں زلمے خلیل زاد ہی امریکہ کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔ پچھلے دنوں وہ ٹرمپ کے عمران خان کے نام خط کے بیچوں بیچ پاکستانی رہبری کے ساتھ اسلام آباد میں مصروف مذاکرات بھی رہے ۔ٹرمپ کے خط میں پاکستانی رہبری سے افغان مسلے سے نبٹنے کیلئے ہمکاری پہ اصرار تھا۔پاکستان جہاں سفارتی اقدامات کیلئے آمادہ نظر آ رہا ہے وہی کسی بھی جنگ میں مزید اُلجھنے پہ اصرار بھی جاری ہے۔ پاکستان پہ گوناگوں الزامات عائد کرنے کے بیچوں بیچ آجکل ٹرمپ پاکستان پہ اِس حد تک کیوں مہرباں ہوگئے کہ نامہ رسانی کی نوبت آئی اِس بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کی تلاش میں کبھی بھی کچھ بھی کر سکتا ہے۔کل کا دوست کو آ ج کا دشمن اور آج کے دشمن کو کل کا دوست بنانے میں امریکہ کو دیر نہیں لگتی۔امریکہ اِس تلاش میں ہے کہ موجودہ افغان حکومت میں طالبان کو شریک بنا کے وہ افغانستان میں اپنی بالا دستی قا ئم رکھے ثانیاََ امریکہ روس اور چین کو افغان معاملات میں جس حد تک بھی ہو سکے دور رکھنا چاہتا ہے ثالثاََ جہاں وہ افغان مسلے سے نبٹنے میں پاکستان کی مدد کو یقینی بنانا چاہتا ہے وہی یہ منشا بھی ہے کہ بھارت کے مفادات کو افغانستان میں تحفظ بخشا جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپنے گوناگوں سفارتی مفادات کو محکم سے محکم تر بنانے میں امریکی کوششیں آگے کیا رنگ لاتی ہیں؟
Feedback on: [email protected]