سری نگر//جموں وکشمیر پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل کے راجندرا نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی کارروائی سے ریاست جموں وکشمیر کے حالات پر نمایاں اثرات مرتب ہونے کے علاوہ یہاں موجود جنگجوئوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ وادی میں سرگرم جنگجو نوجوانوں کو مائل کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں لیکن بدقسمتی سے سیکورٹی فورسزکے پاس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی میکانزم موجود نہیں ہے۔ کے راجندرا نے بتایا کہ ریاست میں اس وقت 25000سرنڈرڈ جنگجو ہیں جن میں سے 10فیصدی پھر سے جنگجوئیت کو جوائن کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ انہوں نے نئی دہلی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ہاں کشمیر سے متعلق کوئی ٹھوس پالیسی موجود نہیں ہے۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق ریاستی پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کے راجندرا نے پونے شہر میں ایک تقریب کے دوران بولتے ہوئے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پر اپنے ردعمل میں کہا کہ اس طرح کی کارروائی سے ریاست جموں وکشمیر کے حالات و واقعات پر نمایاں اثرات مرتب ہونے کا قوی امکان موجود ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں سرگرم جنگجوئوں گروپوں کے حوصلے بھی بلند ہونے کا خدشہ ہے۔سابق پولیس سربراہ نے دعویٰ کرتے ہوئے نئی دہلی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس کشمیر سے متعلق کوئی ٹھوس اور واضح پالیسی موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے سیاسی و سیکورٹی حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے نئی دہلی کے پاس کوئی ٹھوس روڑ میپ موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہائیوں تک موجود امریکی فوج کے انخلا سے ریاست جموں وکشمیر کی سیکورٹی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے جس کے نتیجے میں یہاں سرگرم جنگجوگروپوں کے حوصلے مزید بلند ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ نئی دہلی کے پاس کشمیر میں جاری امن دشمن سرگرمیوں کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے کوئی روڑ میپ موجود نہیں ہے لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ پالیسی میں سختی پیدا کرکے پاکستان کو کرارہ جواب دیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اگر حکومتیں بھی تبدیل ہوتی ہیں تاہم وہاں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی لیکن بھارت میں ہر ہمیشہ سے اس میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ہمیں اپنی روایتی پالیسی میں تبدیلی لانی ہوگی۔ انہوں نے پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرکے یہاں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے اور اس کے لیے اُس نے اپنی سرزمین میں بڑے بڑے تربیتی مراکز قائم کئے ہوئے ہیں جہاں پر جنگجوئوںکو تیار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے نئی دہلی پر زور دیا کہ وہ پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے منہ توڑ جواب دے تاکہ پاکستان مستقبل میں جنگجوئوں کی معاونت کرنے سے احتراز کرے۔انہوں نے افغانستان کی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اپنی فوج افغانستان سے واپس بلارہا ہے جس کے کشمیر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ایسا وقت ہے جب ہم افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے اثرات ہم محسوس کریں گے۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد ریاست جمو ں وکشمیر میں پاکستان کی درپردہ دہشت گردی حوصلہ پائے گی۔اس طرح کی کارروائی سے ریاست میں سرگرم جنگجو گروپ کے حوصلے بلند ہوں گے اور جنگجوئیت میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست جموں وکشمیر میں سرگرم جنگجو اسے ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کررہے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں جب افغانستان کی سرزمین سے امریکی فوج کا انخلا ممکن ہوگیا تو اسی طرح کشمیر سے بھی بھارتی فوج کا انخلا ممکن ہوسکتا ہے، لہٰذا اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی دہلی کوٹھوس پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور اس جنگجوئیت کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے ہی نپٹنا ہوگا تاکہ انہیں واضح پیغام ارسال کیا جائے۔خیال رہے امریکی نے حال ہی میں افغانستان سے اپنی فوج میں تخفیف کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے 7000امریکی فوجیوں کو واپس اپنے ملک بلایا جائے گا۔ امریکی فوجیوں کو افغانستان میں مقامی افغان فوجیوں کو تربیت فراہم کرنے اور طالبان مخالف کارروائیوں پر مامور کیا گیا تھا۔سابق پولیس سربراہ نے بتایا کہ کشمیر میں جنگجو سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال کررہے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مقامی نوجوانوں کو امن دشمن سرگرمیوں میں ملوث کررہے ہیں۔ جنگجوتنظیمیں کشمیر میں مقامی سطح پر غیر یقینی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے سوشل میڈیا کا کثرت سے استعمال کررہے ہیں اور اس طرح وہ نئی نسل کے ذہن میں بھارت مخالف رجحان کو پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن قدقسمتی سے ہمارے پاس اس کا کائونٹر کرنے کے لیے کوئی میکانزم موجود نہیں ہے۔ انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں کشمیر میںصورتحال بالکل مختلف تھی کیوں کہ وہاں پر عوام صرف آزادی کا مطالبہ کررہے تھے ۔ ماضی میں کشمیری عوام بھارت اور پاکستان دونوں سے چھٹکارا چاہتے تھے لیکن موجودہ صورتحال ماضی کے مقابلے میں انتہائی تشویش ناک ہے کیوں کہ اب کشمیری عوام ریاست میں خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں جو کہ ہمارے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔1984میں آئی پی ایس کا امتحان پاس کرنے والے کے راجندرا نے بتایا کہ سیکورٹی فورسز نے آج تک سرنڈر پالیسی سے اچھی طرح استفادہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست جموں وکشمیر میں اس وقت 25000سرنڈرڈ جنگجو ہیں لیکن اُن کے ساتھ ڈیل کرنے میں سیکورٹی فورسز بری طرح سے ناکام ہوگئے۔ حالانکہ آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اُن میں 10فیصدی اب دوبارہ جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے پرتول مار رہے ہیں جو کہ سیکورٹی فورسز کے لیے ایک خطرناک چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔ ریاست میں تعینات سیکورٹی فورسز کو چاہیے کہ وہ سرنڈرڈ جنگجوئوں کی طرف توجہ کرکے اُن کے ساتھ رابطہ بنائے رکھیں اور ان کی صلاحیتوں کو مین اسٹریم کے دائرے میں لائے۔
دیر آئد درست آئد
مسئلہ کشمیر حل کیاجائے:انجینئر
اشرف چراغ
کپوارہ //نئی دلی کو کے راجندرا کے بیان سے سبق حاصل کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے عوامی اتحاد پارٹی کے سر براہ انجینئر رشید نے کہاکہ سابق پولیس سربراہ نے دیر سے ہی سی لیکن سچ کا اعتراف کیاہے ۔منگل کو راجواڑ کے دور دراز علاقے لچھم پورہ میں پارٹی کارکنو ں سے خطاب کے دوران انجینئر رشید نے کہا کہ کے راجندرا بطور ڈی جی پی نے جمو ں و کشمیر میں جنگجو کو ختم کرنے کا کئی بار دعویٰ کیا تھا تاہم انہو ں نے بھی آ ج اس بات کا اعتراف کیا کہ ریاست جمو ں و کشمیر میں حالات جو ں کے تو ں ہیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء سے ریاست جمو ں و کشمیر کے موجودہ حالات پر اثر پڑ سکتے ہیں جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔اور اس پر سنجیدگی سے غور کر نے کی ضرورت ہے ۔انجینئر رشید نے کہا کہ کے راجندرا کے اس بات کا اعتراف سے صاف ظاہر کے کہ جنگ چاہے افغانستان یا کشمیر میں ہو جیتی نہیں جا سکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اب جب وقت آ گیا کہ امریکی فوج کو افغانستان سے نکلنا پڑا تو جمو ں و کشمیر میں نہ صرف جنگجو طاقتیں بلکہ انصاف پسند لوگ بھی اس مثبت پیش رفت کی امید رکھتے ہیں ۔انہو ں نے کہا کہ حالات کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی دلی کو ہٹ دھرمی اور ضد چھو ڑ کر 70سال سے لٹکا مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سنجید ہ کوشش کرنی چایئے