خوش مزاج، خوش اخلاق، خوش وضع، حلیم الطبع، فقیر منش، کسی کو ذرا سا دکھ میں دیکھ کر تڑپ جانے والی صفت، عادات و اطوار میں اسلاف کی شرافت، خاکساری، انکساری، طبیعت میں حلیمی، کشمیر کے معروف خاندان کے چشم و چراغ (چشم اور چراغ باطنی اور بیرونی روشنیوں کی علامتیں ہیں) سر تا پا عجز و نیاز اور جذبۂ خدمت و خلوص کا مرکب اگر تیار کیا جائے تو وحشی سعید (محمد سعید ترمبو) کی تصویر مکمل ہوتی ہے۔ ’وحشی‘ اگرچہ وحشی والی کوئی بات نہیں لیکن وحشی بمعنی مجنوں، مجنوں کے تمام خواص ان میں موجود۔ ’ادب کے مجنوں‘ نگر نگر، ملکوں ملکوں صحرانوردی کرنے کے بعد درجنوں کہانیاں، ناول، ناولٹ اس کا ثبوت۔ ’سعید‘ یعنی فرمانبردار والدین کے اور بیگم کے بھی۔
مجنون ادب کی دنیا کے بنے اور ایسے بنے کہ سینکڑوں کہانیوں کے خالق کہلائے، ناول اور ناولٹ صفحۂ قرطاس پر اتارے تو تیز رفتاری سے آگے اور آگے کی جانب گامزن رہے۔ والدین سارہ ترمبو اور محمد عبداﷲ ترمبو کی نیک و صالح اولاد ان کی دعائوں کا صلہ اور ثمر۔ زندگی میں ہرقدم پر کامیابیوں سے ہمکنار ہوکر ’وحشی‘ تخلص کو معنویتیں بخشیں۔ مزاج میں بسی خوش اخلاقی ان کی ایسی خوبی ہے جو اپنوں کو ہی نہیں اغیار کو بھی باندھ کر رکھتی ہے۔
وحشی سعید قیمتی قالین پر بیٹھے ہوں یا محو استراحت ہوں یا صوفے پر متمکن ہوں ان کی سوچوں کا محور ’زمین‘ اور اس پر بسنے والے، کراہتے، مسائل کی زنجیروں میں جکڑے انسان ہوتے ہیں اور وہ مسائل حل کرنے میں کوشاں۔ کیا کوئی اتنا کامیاب تخلیق کار ہو سکتا ہے۔ یقینا کیونکہ لوگوں کے درمیان رہ کر ہی کہانیاں ذہن میں پرورش پاتی ہیں۔ پھر کاغذ پر اتر کر اعلانیہ اور تعارف بن جاتی ہیں اس فنکار کا۔ ہر انسان کے بطون میں اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خوبیاں یکجا کر رکھی ہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ انہیں بروئے کار کب، کیسے اور کیوں کر لایا جا سکتا ہے۔ اگر انسان چاہے تو ان خوبیوں سے اپنا آپ منوا لیتا ہے اور دوسروں کو بھی اپنے خصائص کے سبب فیض پہنچا سکتا ہے تو قارئین باتمکین! ہم سب کے وحشی سعید قلم کا چپو سنبھال کاغذ کی نائو میں سوار اردو ادب کو نہ صرف مالا مال کر رہے ہیں بلکہ خود کی ذات کو ادب کی دنیا میں اعتبار بخش رہے ہیں۔
کسی بھی تخلیق کار کا سب سے اہم اور بڑا مسئلہ نئے نئے موضوعات کی تلاش ہوتی ہے لیکن سچے اور باعمل فنکار کے لیے موضوع کی تلاش چہ معنی دارد۔ اس کے ذہن میں تو خیالات آبشار کی صورت نازل ہوتے ہیں اور بہائو اتنا تیز ہوتا ہے کہ خیالات پر بند باندھنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن سچے اور کھرے فنکار کے لیے یہی وقت انتہائی موزوں ہوتا ہے اور پھر وہ قلم کو ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام کر اپنی صلاحیتوں کو یوں بروئے کار لاتا ہے کہ لوگوں کے ذہن و دل کو ہی نہیں آنکھوں کو بھی خیرہ کر دیتا ہے اور پھر اس کا قلم ایسے ایسے فن پارے اگلتا ہے کہ سب ورطۂ حیرت کا شکار ہو جاتے ہیں، تیر نشانے پر بیٹھتا ہے، قارئین اس کی تحریروں کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ خیالات یوں ہی آبشار کی صورت نازل نہیں ہوتے اس کے لیے مطالعہ، ریاضت اور محنت بہت ضروری ہے۔ بہ نظر غائر دیکھیں تو وحشی سعید کے یہاں مطالعہ کی کمی کا احساس کہیں سے کہیں تک نہیں ہوتا۔ ایک جانب وہ کامیاب تخلیق کار ہیں تو دوسری جانب عملی زندگی میں بھی کامیاب اور جانے مانے تاجر ہیں، گھر میں ذمہ دار باپ ہیں تو بیوی کے وفا شعار شوہر بھی۔ کسی انسان میں اتنی خوبیاں یکجا ہونا حیرت کی بات ہے۔ ان کے بڑھتے قدموں کو کون روک سکتا ہے اور کون ان کے خیالات پر سیقل لگا سکتا ہے۔ وحشی سعید کی کہانیاں پڑھیے، سوچیے اور محسوس کیجیے۔ ان کی کہانی مختصر ہو یا طویل کسی نہ کسی گہرے تاثر کا پتہ دیتی ہے۔ کہانی جدید ہو یا قدیم کہانی پن کے تمام تر تقاضوں سے لیس ہوتی ہے۔ کہانی سے ان کا رشتہ اول تا آخر استوار رہتا ہے اور یہ استواری ہی کہانی کی اساس ہے۔ دلچسپی کا عنصر کہانی کو مضبوط بنا کر فنکار کو آفاقیت بخشتا ہے۔ کہانی دراصل انسانی زندگی کا عکس ہوتی ہے اور جس کہانی میں قاری کو اپنا عکس نظر آتا ہے وہ کہانی لافانی ہوکر تاریخ میں اپنی جگہ محفوظ کر لیتی ہے۔
جہاں تک وحشی سعید کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے بقول ان کے ۱۹۶۲ء میں افسانہ لکھنے کا آغاز کیا۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ان کی تحریریں باقاعدہ رسائل و جرائد میں شائع ہونے لگیں۔ دراصل قلبی واردات کے اظہار کے لیے افسانہ سب سے مؤثر ہتھیار ہوتا ہے اور کچھ لکھ کر ہی اپنے جذبات کو زبان عطا کر کے دیگر لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وحشی سعید نے اپنے نام کو اس لحاظ سے اعتبار بخشا، جب جب قلم اٹھایا اور اپنے احساسات دوسروں تک پہنچائے تو ان کی تحریروں کو نہ صرف پسند کیا گیا بلکہ پذیرائی بھی ملی اور اس پذیرائی نے فنکار کی واضح پہچان قائم کی۔
موجودہ زندگی اتنی پیچیدہ اور مسائل سے گھری ہوئی ہے کہ اس سے مفر ممکن نہیں۔ لفظ ہماری زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ لفظ ہی ہیں جن کے ذریعے ہم زندگی کے دکھ سکھ دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ وحشی سعید لفظوں کی حرمت سے بخوبی واقف ہیں۔ اور ان کا استعمال کر کے کتنے ہی فن پارے اردو کے افسانوی ادب کو عطا کر چکے ہیں۔ انہوں نے علامتی، نیم علامتی، سماجی، معاشرتی، روایتی، سبق آموز اور کسی حد تک رومانی کہانیاں لکھ کر قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے اور یہ مرتبہ انہیں یوں ہی حاصل نہیں ہو گیا۔ اس کے لیے انہیں بے پناہ محنت اور ریاضت کرنی پڑی ہے اور جگ ظاہر ہے کہ محنت سے کیا جانے والا کوئی بھی کام رائیگاں نہیں جاتا۔ وحشی سعید کی کہانی کہنے یا افسانہ لکھنے کا انداز و اسلوب برجستہ، نپاتلا، دل پذیر اور شگفتہ تو ہے ہی، وہ فنی طور پر چپکے سے، دھیمے سے قاری کے ذہن و دل میں اتر کر حقیقتوں کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ کہانی ان کی سانسوں کے ساتھ سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔
جس طرح کرشن چندر، منٹو، بیدی، عصمت اردو افسانے کے وہ عناصر اربعہ ہیں جن میں سے اگر کسی ایک کو بھی کم کر دیا جائے تو اردو افسانے کی عمارت نہ صرف کمزور ہو جائے گی بلکہ منہدم ہوکر رہ جائے گی۔ اسی طرح کشمیر میں پریم ناتھ پردیسی، علی محمد لون، ٹھاکر پونچھی، غلام رسول سنتوش، اختر محی الدین، موہن یاور ہیں۔ ان کے بعد ایک بڑی کھیپ ہے ان میں پشکر ناتھ، ویدراہی، برج پریمی، عمر مجید اور نورشاہ وغیرہ کی کہکشاں کے درمیان وحشی سعید پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے۔ وہ انسانی نفسیات کے گرد کہانی بننے کے فن سے واقف ہی نہیں بلکہ ارد گرد کے ماحول سے کہانی کی اساس کھڑی کرنے میں طاق ہیں۔ وہ فرد اور معاشرے کے باہمی رشتوں کو اپنی کہانیوں اور ناولٹ کو فن کی کسوٹی پر پرکھ کر (فنکار بھی خود اور ناقد بھی خود) قارئین کی عدالت میں پیش کرتے ہیں۔ نفسا نفسی کے اس دور میں زندگی کی حقیقی قدروں کی عکاسی کرنا ان کے فنی اعتماد کی دلیل ہی نہیں ان کے انداز فکر کی بھی غماز ہے۔ کوئی بھی فنکار صرف اور صرف اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر قلم سے نکلی تحریروں کی پرتیں یوں وا کرتا ہے کہ تخلیق کو زندہ جاوید بنا دیتا ہے۔ وحشی سعید کے یہاں یہ صفت واضح طور پر موجود ہے، ان کے ہاں اظہاریت اور تاثر کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ شاید یہ ہمارے عہد کا المیہ ہی نہیں حقیقت بھی ہے کہ زندگی مشین کی طرح تیز رفتار ہوگئی ہے۔ معاشرے میں پھیلے جز، تنائو اور بگاڑ نے اخلاقی قدروں کو پامال کر کے رکھ دیا ہے۔ تہذیب کی شکست وریخت منافقانہ رویہ اور بے راہ روی سماج میں عام ہے۔ انسان کا کردار پستی کی جانب گامزن ہے اور اس پر بے حسی کی کیفیت طاری ہے۔ جب معاشرے کے حالات ایسے ناگفتہ بہ ہوئے، اخلاقی قدریں زوال کی حدوں کو چھون لگیں تو زود حس افسانہ نگار معاشرے کی ان خرابیوں پر کڑھتا ہے۔ قدروں اور اخلاق کی پامالی اسے رنج و محن میں مبتلا کر دیتی ہے اور وہ بے ساختہ قلم اٹھا لیتا ہے اور پھر اس کا قلم ایسے ایسے فن پارے وجود میں لاتا ہے کہ لوگ انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں۔ وحشی سعید زود حس کہانی کار ہیں چنانچہ اپنے افسانوں میں سماج کے ان رستے ناسوروں کی جانب کہیں اشارتاً، کہیں علامتی اور استعاراتی تو کہیں واشگاف انداز میں ذکر کرتے ہیں۔
ذہانت پر کسی کی اجارہ داری نہیں، جن لوگوں کو اظہار کے مواقع میسر آ جاتے ہیں وہ زمانے کا رخ بدل دیتے ہیں۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی تاریکی کو اجالے میں تبدیل کرنا تخلیق کار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ چاہے وہ اس کے لیے شعری اصناف کا سہار لے یا نثری فن پارے کا، ذمہ داری نبھانا اس کا فرض اولیں ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ وحشی سعید یہ کام احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ منشی پریم چند کے دور میں بھی افسانہ نگار اپنے گرد و پیش سے بے خبر نہ تھے۔ سماجی اور معاشرتی مسائل پر اس وقت بھی کہانیاں لکھی گئیں اگرچہ ابتدا میں رومانی رنگ غالب رہا پھر پریم چند کے بعد اردو کہانی نے جس تیزی سے ہردہے میں اپنا پیرہن تبدیل کیا اس کی مثال دوسری زبانوں کے ادب میں بہت کم ملتی ہے۔ یہ تبدیلی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس صنف میں طبع آزمائی کرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی تھی اور نئے لکھنے والے بھی منظر عام پر آرہے تھے۔ قصہ کہانی سے دلچسپی ہر دور میں انسان کی فطرت میں شامل رہی ہے۔ داستانوں سے لے کرتا حال یہ دلچسپی برقرار ہے۔ انسان دن بھر روزی روٹی اور مسائل سے نبرد آزما جہاں تہاں سرگرداں رہ کر شام اترتے ہی تھکن سے چور رات میں سستانے اور دن بھر کی کلفتیں دور کرنے کے لیے لوگوں کے ساتھ مل بیٹھ کر باتیں کر کے تسکین اور ذہنی آسودگی کا سامان فراہم کرنا چاہتا ہے تاکہ وجود پر طاری تھکن کا ازالہ ہو سکے۔ شگفتگی کا ایک ہلکا سا جھونکا دن بھر کی کثافت کو دور کر کے اس کے وجود میں تازگی بھر دیتا ہے۔ جس طرح زندگی ایک جگہ ٹھہرائو پسند نہیں کرتی اور ترقی کا سفر ہر لمحہ جاری رہتا ہے۔ سفر کرنا ترقی کی علامت ہی نہیں زندگی کا مقصد بھی ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اتبدا تاحال رومانی کہانیوں کا چلن بہت زیادہ رہا۔ ویسے بھی حسن و عشق، محبت انسان کے خمیر میں شامل ہے اور اس سے متعلق قصے کہانیاں صدیوں پر محیط ہیں۔ یہ جذبہ ہر انسان میں روز ازل سے جاری و ساری ہے لیکن وقت کی رفتار کے ساتھ رومان اور اس کی رنگینیوں کی گنجائش کم ہونے کے ساتھ انسان زندگی کی حقیقتوں سے روشناس ہوتا چلا گیا اور اردو افسانے کی جو نئی صورت سامنے آئی اس میں افسانہ نگار واقعات کا چہرہ دکھانے کے بجائے مسائل ابھار کر دکھانے کی کوشش کرنے لگا۔ اگرچہ روایتی افسانے میں بھی مسائل ہوتے ہیں۔ میری رائے میں وحشی سعید کا شمار بھی ایسے ہی افسانہ نگاروں میں کیا جانا چاہیے جنہوں نے اپنی تحریروں میں عصری مسائل کو نہ صرف اہمیت دی بلکہ ان کا حل بھی تلاش کرنے کی سعی کی۔ ان کی کہانیاں رنگا رنگ پھولوں کا ایسا حسین گلدستہ ہیں جن کی خوشبو قرب و جوار میں ہی نہیں دور از کار ممالک میں بھی پھیل کر قارئین کو اپنی جانب متوجہ کر چکی ہے۔ ان کی کہانیوں میں ایسا ذائقہ ہے جنہیں پڑھ کر قاری کو آسودگی کا احساس ہوتا ہے۔ ویسے بھی فن کسی کی میراث نہیں، محنت و شوق سے کیا جانے والا ہر کام انسان کے لیے کامیابی کے در وا کر دیتا ہے اور شوق جب منفرد قسم کا ہو تو وہ انسان کو بھی منفرد بنا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ شہرت اس کے قدم چومتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آہنی ارادوں کے مالک وحشی سعید اپنے بزنس میں تو کامیاب و کامران ہیں ہی، ادب کے میدان میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں۔ کتنے ہی فن پارے ان کے اشہب قلم سے نکل کر اردو ادب میں اپنا نقش بنانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات سے وقت چرا کر ادب تخلیق کرتے ہیں۔ ان کی بعض تحریروں کو پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ بزنس کی طرح انہوں نے ادب کو بھی اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔
ان کی کہانیاں مناظر، کردار، پلاٹ اور ماحول کی عکاسی کرتی ہوئی عوامی زندگی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ انہوں نے علامتی کہانیاں لکھتے ہوئے اس بات کو ملحوظ رکھا کہ استعمال کی جانے والی علامتیں قابل فہم ہوں۔ ترسیل کہانی کا مسئلہ نہ بنے، ’کالا‘ کہانی اس خوبی سے مملو ہے۔ انہوںنے اس مختصر کہانی میں کتے کو سمبل بنا کر انسانی خصلتوں اور جبلتوں کو اجاگر کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہانی کے کچھ حصے:
’’وہ کتا تھا لیکن قوی ہیکل۔ اپنی طاقت کے بل پر اس کا پورے محلے پر راج تھا۔ کسی اور کتے کی جرأت نہیں تھی کہ اس کے علاقے میں داخل ہو جائے۔ ایک بار دوسرے محلے کے کتوں نے یہ کوشش کی تھی۔
’’کالا بھائی! ہمیں اپنے اتنے بڑے علاقے میں تھوڑی سی جگہ دے دو۔‘‘
لیکن کالا سمجھتا تھا کہ اگر آج انہیں تھوڑی سی جگہ دے دی تو ممکن ہے آہستہ آہستہ پورے علاقے پر یہ قبضہ کر لیں۔ یہ خیال آتے ہی وہ اتنے زور سے غرایا کہ وہ سارے دم دبا کر بھاگ گئے۔ ایک چھوٹا کتا جس کا باپ مر چکا تھا اور اس کا گھر کالا کے علاقے میں پڑتا تھا، کو اپنے باپ کا گھر بہت یاد آرہا تھا۔ ایک رات وہ چپکے سے اس کے علاقے میں داخل ہو گیا لیکن صبح ہی کالا کی نظروں نے اسے دیکھ لیا اور اس پر ٹوٹ پڑا۔ چھوٹے کتے کا سارا بدن لہولہان ہوگیا اور وہ بڑی مشکل سے جان بچا کر اپنی ماں کے پاس بھاگا۔۔۔۔۔۔
’’ارے کتو! میرے معصوم اور یتیم بچے کو اس کالا کمبخت نے مار ہی ڈالا۔ ہائے میرا بچہ!‘‘ بوڑھی کتیا کی فریاد نے جوان کتوں کے خون میں گرمی بھردی۔
(باقی باقی