ایف آزاد ؔ دلنوی
مِشعل
بھرے بازار سے گزرتے ہوئے اچانک ایک آوازمیری سماعتوں سے ٹکرائی۔میرے قدم رک گئے اور میں ادھر ادھر تاک جھانک کرنے لگا۔میں نے ایک نوجوان کوہاتھ ہلاتے ہوئے اپنی طرف آ تے دیکھا۔ اُس کے کپڑے میلے کچیلے تھے چہرے پر بال اُگ آئے تھے۔میں اُس کو آتے ہوئے غور سے دیکھ رہا تھااور اپنی یاداشت پر زور ڈالتے ہوئے اُسے جاننے کی کوشش کر رہاتھاکہ اتنے میں وہ نزدیک پہنچ کر بولا
’’ سر۔۔۔۔۔آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔‘‘
میں نے آنکھیں بندکر کے اپنی یاداشت پر پھر زور ڈالالیکن مجھے دور دور تک اس کا یہ حلیہ یاد نہیں آرہا تھا۔ میں کچھ دیر کے لئے ششدر سا رہا ۔وہ یہ بھانپ گیا کہ میں اُسے پہچان نہیں پا رہا ہوںوہ پھر بولا
’’سر۔۔۔۔میں احمد ہوں۔‘‘
وہ بس اتنا ہی کہہ پایا کہ ایک کرخت آواز سن کر تھرا اُٹھااور تیز تیز قدم اُٹھا کرواپس چل دیا۔میں اپنی جگہ پرساکت کھڑے کھڑے اُس کو دیکھتا رہا۔وہ ایک بڑے دکان کے سامنے جاکر کندھوں پر کچھ سامان اُٹھا کر دوسری جانب چلا۔وہ کمر جھکائے چلتے چلتے بیچ بیچ میں میر ی طرف دیکھ رہا تھایہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوا۔میں کچھ دیر کے لئے سوچوں میںالجھ کرخود سے ہی بڑبڑاتا رہا
’’وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔کیا کہنا چاہتا تھا‘‘
اس سوال نے میرے اندر تجسس پیدا کیا۔میںنزدیک ہی ایک دکان کے اندر جاکر بیٹھا۔اس دکاندار سے میری اچھی جان پہچان تھی میں نے اُس سے پوچھا
’’یہ جونوجوان میرے قریب آیا تھاکیا آپ اُس کو جانتے ہیں۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔میں اُس کو جانتا ہوں۔احمد۔۔۔۔۔بڑا بد قسمت ہے بے چارہ۔باپ کا انتقال ہواتو پڑھائی چھوٹی۔گھر کا سارا بوجھ اُس کے کندھوں پر پڑا۔اُس کی ماں اور ایک بہن ہے۔ بہن کی سگائی ہوئی ہے شادی کی تاریخ بھی قریب ہے۔بے چارا بہت محنت کرتا رہتا ہے۔‘‘
یہ سن کر میں افسردہ ہوا۔میں نے دکان سے نکل کراُس جانب قدم اُٹھائے جہاں سے احمد چل پڑا تھاکچھ مسافت طے کرنے کے بعدمیری نظریں احمد پر پڑیںتو میںنے اسے پکارا
’’احمد۔۔۔۔۔احمد۔‘‘
یہ سنتے ہی وہ مسکراتے ہوئے دوڑا چلا آیاااور سانس ٹھہرائے بول پڑا
’’سر ۔۔۔آپ نے مجھے پہچان لیا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔ہاں۔۔تم احمد ہو نا۔تم کلاس میں میرے ہر سوال کا پھٹ سے جواب دیتے تھے۔پڑھائی کہاں تک کی۔‘‘
’’سر باپ کے انتقال کے بعد پڑھائی چھوٹ گئی تھی۔بس دسویں تک ہی
پڑھ پایا۔سر۔۔۔ اس وقت مجھے لگ رہا تھاکہ میری دنیا ہی اُجڑ چکی ہے اور اندھیروں کے سایئے ہر طرف گھر پر جھولتے نظر آرہے تھے۔رستے پر پیچ لگ رہے تھے۔‘‘
اور بولتے بولتے احمد چپ ہوا ۔اُس کی آنکھوں میں آنسو آئے ۔میں نے اُس کے شانے تھپتھپاتے ہوئے اُس کی ہمت بندھائی۔ایک آدھ آنسو گرا کر وہ پھر بولا
’’سر۔۔۔ایسے میں آپ بہت یاد آئے۔آپ کی وہ ساری باتیں یاد آئیںاور میرے لئے مشعل بنیں۔سرآپ وہ ایک مصرعہ بار بار کہتے تھے نا ۔
’’ہاں ۔۔۔۔۔ہاں۔۔ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔‘‘
احمد نے رسّا اُٹھایا اور مسکراتے ہوئے دکان کی طرف چل دیا۔
���
سناٹا
آنگن میں قدم رکھتے ہی حسامؔکی نظریں پارک میں کھلے رنگ برنگی پھولوںپر پڑیںجو ہوا کے ہلکے جھونکوں سے نیچے جھک جاتے اور آنے والے کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ۔ یہ منظر دیکھ کر حسامؔ سیدھا پارک کی جانب چلااور ان خوب صورت پھولوں کو چھونے تو کبھی سونگھنے لگا۔ وہ کچھ الگ سا سکون محسو س کر رہا تھا۔ کچھ دیر کے لئے یونہی اس کی یہ حرکتیںجاری رہیںاور پھر پارک میںرکھی کرسی اٹھا کران پھولوں کے پاس جاکر بیٹھا۔ اُ سے لگ رہا تھاکہ موسم بہار اپنے پورے جوبن پر ہے۔ہوا کے جھونکوں سے پھولوں کی مہک ہر سو پھیل رہی تھی اور حسامؔ کے دل کو تراوت بخشتی تھی اُس کی آنکھیں ٹھنڈ ک محسوس کر رہی تھیں، تقریباًآ دھ گھنٹہ بیت گیا تھا ۔اندر خاموشی تھی اُسے نہ کسی کے چلنے کی آہٹ سنائی دیتی اور نہ کہیں سے دروازہ کھلنے کی آواز آتی۔وہ دروازے کی طرف بڑھا ۔دروازے پر دستک دی مگر اندر سے کوئی آواز نہیں آئی۔اندر سناٹا تھاحسام ؔ نے ہڑ بڑاتے ہوئے دروازہ زور سے کھولااور سیدھا ڈرائنگ روم میںگھسا۔اندر خالہ جان چپ تکئے سے ٹیک لگائے بیٹھی فون دیکھ رہی تھی اور اُ س کی نظریں فون پہ جمی ہوئی تھیں۔ وہ کوئی گیم کھیلنے میں اتنی مصروف تھی کہ اُس کو حسام ؔ کے آنے کی بھنک تک نہ لگی۔ حسامؔکچھ دیر کے لئے یونہی کھڑے کھڑے خالہ جان کو دیکھتا رہا۔اس بیچ خالہ جان نے ایک آدھ نظر اس پر ڈالی اور اشارے سے باہر رہنے کو کہا ۔اُس نے بھی خالہ کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا۔ وہ واپس مڑ کر دوسرے ایک کمرے کی طرف بڑھاجہاں اُس کا خالو زاد بھائی لیٹے لیٹے فون دیکھ رہا تھااور اُس کی بہن کمرے کے ایک کونے میں فون ہاتھوں میں پکڑے دراز پڑی تھی۔ حسامؔ ششدر سا رہااور لابی میں رکھے صوفے پر بیٹھ کر انتظار کرتا رہا۔گھنٹہ بھر گزرنے کے بعدبھی جب اُس کا انتظار ختم نہ ہواتو وہ غصے میں اٹھ کھڑا ہوااور دعوت نامہ ٹیبل پر پٹخ کر زور زور سے چلایا۔
’’خالہ جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالہ جان ۔میں چلا۔‘‘
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔ سناٹا ۔۔۔۔پھر بھی نہ ٹوٹا۔
نوٹ:
یہ افسانچہ ادب نامہ کے گذشتہ شمارے میں غلطی سے خالد بشیر تلگامی کے نام سے شائع ہوا تھا۔ اس کیلئے ہم معذرت خواہ ہیں۔
دلنہ بارہمولہ،کشمیر
موبائل نمبر:-9906484847