ڈاکٹرنذیرمشتاق
چرسی
غنہ چرسی جو محلے میں بہت بدنام تھا مسجد کے نزدیک والے کوچے سے قہقہے لگاتے ہوئے گزر رہا تھا اور ایک خالی ٹین کے ڈبے کو ٹھوکریں مارتا ہوا لڑکھڑا رہا تھا۔۔۔۔۔۔مسجد کے اندر عشاء کی نماز کے بعد انتظامیہ کمیٹی کی میٹنگ ہورہی تھی ۔۔۔۔نیا امام کم سے کم تنخواہ پر استخدام کرنے پر غور وخوض ہورہا تھا ۔صدر نے زور دے کر کہا امام کو ہمارے تابع رہنا پڑے گا۔ہم اسے اپنی من مانی کرنے نہیں دیں گے۔۔سبھی ارکان اس بات پر متفق ہوئے۔ مجلس برخواست ہوئی۔۔۔ ایک کارکن نے باہر جانے سے پہلے مسجد کا جائزہ لیا۔۔۔۔۔۔ایک ادھیڑ عمر کا شخص ایک کونے میں گھٹنوں میں سر دبائے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔کارکن نے گرج دار آواز میں کہا۔ ارے او کون ہو تم اٹھو نکلو ، مسجد کے دروازے کو مقفل کرنا ہے۔
اس نے سہمے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔میں ایک غریب مزدور ہوں صبح گھر سے کام کی تلاش میں نکلا تھا مگر کہیں کام نہیں ملا ۔میرا گھر بہت دور ہے اسلئے سوچا آج رات مسجد میں گزاروں۔۔۔۔۔یہ سن کر مسجد کا صدر اس کے نزدیک آیا اور غصے سے کہا۔۔۔۔یہ خدا کا گھر ہے کوئی مسافر خانہ نہیں ہے۔ ہم یہاں کسی کو رات بھر رکنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔۔۔چلو اٹھو اور نکلو یہاں سے۔۔۔۔
وہ مسافر لڑکھڑاتے ہوئے مسجد سے باہر نکلا۔۔۔۔تھوڑی دور تک چل کر وہ گر پڑا۔ غنہ چرسی دھیرے دھیرے چل رہا تھا اس نے اسے گرتے ہوئے دیکھا اور قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔۔ارے بھائی زیادہ مت پیا کرو میری طرح۔۔۔کنٹرول۔ کنٹرول۔۔۔۔مسافر دھیرے دھیرے کھڑا ہوا اور غنہ چرسی سے کہا۔۔۔۔میں نے کچھ نہیں پیا ہے میں صبح سے بھوکا پیاسا ہوں اسی لئے۔۔۔۔۔۔
اوہ اوہ تم بھوکے پیاسے ہو اور میرا پیٹ بھرا ہے کیسا کمبخت ہوں میں۔۔۔۔چل میرے بھائی چل میرے گھر تجھے پیٹ بھر کر کھانا کھلاؤں گا اور ہاں آج رات تم میرے مہمان ہو۔۔۔چل میرے بھائی چل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسجد سے نکلنے والے افراد میں سے ایک نے ان دونوں کو ساتھ چلتے دیکھ کر طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔لو آج غنہ چرسی پھر کسی اجنبی مسافر کو اپنے گھر لے جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔
بلا عنوان
چل یار آج ہوٹل وکٹوریہ چلتے ہیں وہاں آج بڑے بڑے لوگ آئیں گے۔۔۔دعوت نامہ تو ہم کو مل گیا ہے چلیں آج اسی بہانے بڑے بڑے نامور قلمکاروں سے ملاقات کریں گے۔
وہاں آج غریب کشمیری کی کتاب۔۔۔ میں اور تو۔۔۔۔۔ کی رسم رونمائی ہوگی۔ سنا ہے بہترین دلنشین خوبصورت کتاب لکھی ہے۔ چلو چلتے ہیں۔
دونوں دوست ہوٹل وکٹوریہ کے گیٹ کے قریب پہنچے۔ایک دوست نے دوسرے سے کہا، جیب میں کتنی رقم ہے۔
کس لئے۔۔۔۔۔ دوسرے دوست نے پوچھا۔
کتاب خریدنے کے لیے اور کس لئے۔۔
کتاب خریدنی پڑے گی۔۔۔۔۔۔میں تو سمجھا تھا کہ۔۔۔۔۔
۔۔۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد پہلے دوست نے کہا۔۔۔
چل یار چھوڑ۔ جانے بھی دے ۔۔۔۔۔۔ ریستوران ڈیلایٹ میں انجوائے کرتے ہیں۔۔۔
کتاب خریدنی پڑے گی۔۔۔۔۔۔میں تو سمجھا تھا کہ۔۔۔۔۔
۔۔۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد پہلے دوست نے کہا۔۔۔
چل یار چھوڑ۔ جانے بھی دے۔۔۔ ریستوران ڈیلایٹ میں انجوائے کرتے ہیں۔۔۔
بدلاو
آپ پیسوں کا انتظام کریں ہم اجمیر شریف جاکر منت مانگیں گے، اللہ ہماری مراد ضرور پوری کرے گا ۔جمالمیر اپنی بیوی کی ہر بات مانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی بیوی کی گود ابھی تک سونی ہےاور وہ ایک بیٹے کے لیے ترس رہی ہے۔اس لیے وہ اسی وقت اپنے ایک آشنا صمد جان کے پاس گیا۔
مجھے بیس ہزار روپے ۔۔۔جمالمیرنے بات ادھوری چھوڑ کر اس سے پوچھا۔۔کیا بات ہے تم بہت اداس ہو تمہاری آنکھوں میں آنسو۔۔۔۔۔۔صمدمیر نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔۔۔ میری بیوی بستر مرگ پر ہے ڈاکٹروں نے جواب دیا ہے۔ وہ دن رات اپنے بیٹے کو ڈھونڈتی رہتی ہے۔ وہ شہر میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتا ہے اسے کئی بار سندیسہ بھیجا مگر وہ نہیں آیا۔۔ اس کی ماں دن رات روتی رہتی ہے وہ مرنے سے پہلے ایک بار اسے سینے سے لگانا چاہتی ہے مگر اس کا بیٹا ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے۔ اپنی ماں کی آخری خواہش بھی پوری کرنے نہیں آرہا ہے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کہ میں کیا کروں۔۔ یہ سن کرجمال میر اپنے اندر عجیب سی بے چینی محسوس کرنے لگا۔ اس کا دل تیری سے دھڑکنے لگا اوروہ سینے میں درد محسوس کرنے لگا۔۔۔۔۔وہ اچانک کھڑا ہوا اور صمد جان نے تکئے کے نیچے سے روپیوں کا بنڈل نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔یہ لو پورے بیس ہزار ہیں۔۔۔ جمال میر نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھے اور کہاابمجھے ان روپیوں کی ضرورت نہیں ہے۔
فہم
سونو نے ٹی وی اسکرین پر لمبی داڑھی والے لیڈر کو دیکھ کر زور زور سے تالی بجانا شروع کی۔یہ انکل ہم کو چھٹی دلواتا ہے۔۔۔۔۔۔ لیڈروں نے غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال کا اور سرکار نے کرفیو کا اعلان کیا تھا لوگ گھروں میں محصور تھے۔سونو خوش تھی کہ اسے اسکول سے چھٹی ملی ہے۔ اب وہ دن بھر اپنی دوست کے ساتھ کھیلے گی۔۔۔ہفت رنگی چڑیا اس کی سب سے پیاری سہیلی تھی۔۔۔سات رنگوں کی یہ چڑیا اس کے باپ نے ایران سے لائی تھی۔۔وہاں اس کا ایک دوست تھا جس کا مشغلہ انواع و اقسام کے پرندے جمع کرنا تھا۔ سونو کے باپ احمد علی میر کو یہ چڑیا اسی نے تحفے میں دی تھی۔۔۔سونو خالی وقت میں اسی چڑیا کے ساتھ دل بہلاتی۔ اسے دانہ کھلاتی، پانی پلاتی باتیں کرتی ۔۔۔آج وہ اس سے کہہ رہی تھی۔۔میری سہیلی اب چھٹی ہے ہم کھیلیں گے گائینگے ۔ہنسیںگے، گانے سنیں گے۔۔۔۔۔وہ چڑیا کو پانی پلارہی تھی۔۔۔۔اس کے ماں باپ اسے پیار سے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ہڑتال اور کرفیو جاری تھا۔ چالیس دن سے سونو گھر میں تھی۔ باہر جانے کی کسی کو اجازت نہیں تھی اس لئے سونو کو بسکٹ، کرکرے، چیپس اور چاکلیٹ بھی نہیں مل رہے تھے۔ وہ اُکتا گئی تھی اسے رہ رہ کے سکول کی سہیلیوں کی یاد آرہی تھی اس لیے وہ بیقراری کے عالم میں کبھی اوپر کبھی نیچے ٹہل رہی تھی۔ اس کی ماں اس کا درد سمجھ گئی تھی مگر کیا کرتی۔۔۔۔اچانک سونو لیٹ گئی اور چند لمحوں کے بعد اس کی آنکھ لگ گئی۔۔۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ کچھ بد صورت لوگوں نے اسے پکڑ کر ایک لوہے کے پنجرے میں قید کرلیا۔ وہ تڑپنے لگی مگر اس کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ وہ پنجرے میں کبھی اِدھر کبھی اُدھر پھڑ پھڑ انے لگی۔ وہ عالم اضطراب میں سارا بدن ہلانے لگی۔ بد صورت لوگ اس کی حالت زار پر زور زور سے قہقہے لگا رہے تھے۔ وہ پسینے میں شرابور ہوئی۔ اس کا دل بہت تیزی سے دھڑکنے لگا۔۔۔۔۔کسی بدصورت شخص نے اس کا گلا دبانا چاہا کہ وہ ایکدم سے جاگ گئی۔ ۔۔ ماں۔ اس کے حلق سے چیخ نکل گئی۔۔۔۔اس کی ماں نے اسے سینے سے لگایا، اس کا باپ بھی اس کے نزدیک آیا۔۔۔اس نے دونوں کے ہاتھ پکڑے اور ان کو تیسری منزل کے ورنڈا پر لے گئی۔۔۔پھر اس نے پنجرہ لایا جس میں ہفت رنگی چڑیا قید تھی۔۔۔اس نے بائیں ہاتھ سے پنجرہ پکڑا اور دائیں ہاتھ سے پنجرے کا چھوٹا سا دروازہ کھولا۔ چڑیا پھر سے اُڑگئی۔۔۔وہ دیر تک آسمان کی طرف دیکھتی رہی۔۔۔
سودا
اس جھونپڑ پٹی میں رہنے والےمفلوک الحال باشندوں کا کام لوگوں کے پھینکے ہوئے کوڑے کرکٹ سے وہ ٹھوس چیزیں جمع کرنا تھا جن کو بیچ کر کچھ رقم وصول کرکے پیٹ کی آگ بُجھانے کا انتظام کیا جاسکتا۔ مگر بستی کی بیحد خوبصورت لڑکی مندوری کو اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔وہ اس بستی میں اکیلی رہتی تھی۔ اس کے ماں باپ ہندو مسلم فساد میں مارے گئے تھے۔پیٹ کی آگ ببُجھانے کے لئے اس نے ایک دن گھجندرو کی ہنسی کا مثبت جواب دیا وہ اُسے اپنا دل دے بیٹھی اور۔۔۔
وہ اسی کے ساتھ رہنے لگی۔۔۔مگر صرف۔۔ایک ماہ بعد وہ گھجندرو کو چھوڑ کر ایک ادھیڑ عمر بدصورت اور شرابی مرد دامندرو کے ساتھ رہنے لگی۔۔ ایک روز وہ مٹک مٹک کر بستی سے باہر کہیں جارہی تھی کہ اس کے سابق عاشق گھجندرو نے اس کا رستہ روکا اور کہا۔۔۔تم مجھے چھوڑ کر کیوں چلی گئی۔
مندوری کے سفید دانت اس کے موٹے موٹے ہونٹوں کے درمیان چمک اُٹھے اور اس نے بالوں کی لٹ سے کھیلتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔تم ہررات مجھے کھانے کو آدھی روٹی اور آدھا پیاج دیتے تھے ۔اور دامندرو ہر رات دو روٹیاں اور آدھی کٹوری دال دیتا ہے۔۔۔
ہمدانیہ کالونی بمنہ سرینگر
موبائل نمبر; 9149984865