ایک مکالمہ
ایس معشوق احمد
خدا کے گھر کا بٹوارہ!ارے صاحب ہوش کرو خدا کے گھر کا بھی بٹوارہ ہوتا ہے۔؟ کیسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو۔آپ مجھے غلط سمجھ رہے ہیں صاحب ’’ خدا کے گھر کا بٹوارہ‘‘ تاج الدین محمد کے افسانوں کا مجموعہ ہے جو پچھلے سال یعنی 2024ء کو چھپ کرآگیا ہے۔اس مجموعے میں پچیس افسانے شامل ہیں۔
کون تاج الدین محمد؟صاحب! تاج الدین محمد رانچی جھارکھنڈ میں 1970 ء میں پیدا ہوئے۔آبائی وطن ان کا کرتھا جہاں آباد بہار ہے۔ لیکن رہائش پذیر دہلی میں ہیں۔کویت اور افغانستان میں کام کرچکے ہیں اور ان کا مشغلہ عمارت سازی ہے۔دو دہائیوں سے افسانے لکھ رہے ہیں۔
اچھا !جی ہاں۔۔۔۔۔ اور سنو ! تاج الدین محمد کے بعض افسانے میں فیس بک پر پڑھ چکا ہوں۔وہ اپنے افسانوں میں سماج کے کسی نہ کسی پیچیدہ مسئلے کو تخلیقی زبان عطا کرتے ہیں۔ مجھے ازحد خوشی ہوئی کہ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ کتابی شکل میں چھپ کر آگیا ہے۔
افسانے کیسے ہیں تاج صاحب کے۔۔ارے صاحب کمال لکھتے ہیں زبان و بیان خوبصورت ،جذبات کی عکاسی بڑی خوبی سے کرتے ہیں اور جو ان کے اصلاحی افسانے ہیں، ان میں نصیحت آمیز باتیں اور اسباق افسانوی انداز میں سمجھاتے ہیں۔پڑھ کر لطف بھی آتا ہے اور مسائل اور ان کا حل بھی سمجھ میں آتا ہے۔
معشوق میاں تم نے کوئی افسانہ پڑھا بھی یا یوں ہی سنی سنائی باتیں کررہے ہو؟
ارے صاحب کیا کمال کرتے ہو۔ ان کے افسانے پڑھ چکا ہوں ۔آپ ہو یقین نہیں آتا تو سنو ان کا ایک سبق آموز افسانہ’’ پیر صاحب کے حجرے میں ‘‘ہے۔اس میں پیر صاحب جب عورت کو عقل و دانش سے کوری ،بےوقوف اور نادان گردانتے ہیں اور آدم کو جنت سے نکلوانے کا سبب مانتے ہیں جو ساجدہ سن لیتی ہے اورعورت کی تذلیل و تحقیر ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ساجدہ کے ماتھے پر شکن آتی ہے اور وہ پیر صاحب سے مخاطب ہوکر کہتی ہے کہ شاید آپ عورت کو نہیں پہچان سکے،مرد کی تمام تر عزت ومنزلت اسی عورت کے دم سے قائم ہے۔اس سبق کو یاد کرانے اور پڑھانے کے لئے ساجد پیر صاحب کے حجرے میں غش کھا کر گرجاتی ہے۔اس واقعے سے پیر صاحب پر مشکوک نگاہیں اٹھنے لگیں ،ان سے عقیدت ملامت میں تبدیل ہوئی ،احترام کے بجائے زبان پر لعنت کا کراہ لفظ آیا۔شکوک و شبہات تیز ہوئے اور پیر صاحب کو آستانہ عالیہ سے رخصت کرنے کی تیاریاں تیز تر ہوئیں۔بھلا ہو ساجدہ کا ،جس نے پیر صاحب کی عزت بچا لی اور لوگوں کی برہمی ،خفگی اور غصے کو یہ کہہ کر رفع کیا کہ میرے لئے سعادت کامقام ہے کہ پیر صاحب جیسے مقتدر بزرگ کا دیدار اور مراقبہ نصیب ہوا۔اس واقعے سے ساجدہ نے پیر صاحب کو یہ سبق ازبر کرایا کہ عورت کو نیچ ،کند ذہن ،ناسمجھ اور احمق سمجھنے کی غلطی کبھی نہ کرنا۔
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ تاج الدین محمد نے اس افسانے میں کیا پیغام دیا ہے۔جی ہاں! درست فرمایا عورت کو احمق اور بے وقوف سمجھنے کی غلطی کبھی نہیں کرنی چاہیے بلکہ عورت سمجھ اور دانائی، فہم و فراست ،عقل اور دانش کا پیکر ہوتی ہے۔اس پیغام کو دینے میں تاج الدین محمد کامیاب ہوئے ہیں۔آپ نے علامہ اقبال کا نام سنا ہے۔جی ہاں ۔ان کی نظمیں اکثر پڑھتا ہوںپھر تو آپ کو یہ بند زبانی یاد ہوگا۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں
اس بند کو ذہن میں رکھیے اور افسانہ خدا کے گھر کا بٹوارہ پڑھ لیجیے آپ کو لگے گا کہ اس افسانے میں اسی بند کی شرح لکھی گئی ہے۔تاج الدین محمد نے اس افسانے میں فرقہ بندی سے بچنے کی تلقین کی ہے اور واضح پیغام دیا ہے کہ خدا ایک ہے تو اللہ کا گھر بھی ایک ہی ہے۔مسلمان کو اس سے غرض ہونی چاہیے کہ اس کے دَر پر سر جھکانا ہے اور جہاں اللہ کا گھر ملے چار سجدے ادا کرنےچاہیے۔ آپ اس افسانے کا ایک اقتباس پڑھ لیجیے۔
’’ سارے سسرے مسلمان ہی ہیں لیکن ان مکار و عیار مولویوں نے اپنی دنیا بنانے اور اپنی روزی روٹی چلانے کی خاطر،بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے ہم سب کوبانٹ لیا،ایک دوسرے سے علیحدہ کرلیا اور ہمارے درمیان نفرت کا بیج بودیا۔خدا ان سے قیامت ان سے قیامت کے دن ضرور سمجھ لے گا۔‘‘جو اقتباس آپ نے سنایا اس سے مجھے کیوں لگتا ہے تاج الدین محمد نے سارا ملبہ مولویوں کے سر ڈال دیا ہے۔کیا صرف مولوی قصور وار ہے۔
سارے مولویوں کو ایک لاٹھی سے ہانکنا درست نہیں۔ کچھ مولوی پیٹ پرست ہوسکتے ہیں لیکن اکثر خدا کے فضل سے دین پرست ہیں اور مسلمانوں کو صحیح راہ دکھانے اور ان کی صحیح تربیت کرنے پر دھیان دیتے ہیں۔سماج میں جو برائیاں پنپ رہی ہیں ان کو تاج الدین محمد نے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے اور ان کی اس کوشش کی سراہنا ہونی چاہیے۔موقع ملے تو ان کے افسانے ضرور پڑھ لیجیے، اچھا لکھتے ہیں۔ان کی زبان رواں اور انداز خوبصورت ہے۔اگر آپ کو میری بات کا اعتبار نہیں تو سُنو ان کے افسانوں کے متعلق ڈاکٹر ریاض توحیدی نے کیا کہتے ہیں: ’’ تاج الدین محمد کے افسانوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں سماجی مسائل و موضوعات کی دلچسپ کہانیاں ہوتی ہیں اور ان کے بیشتر افسانے کرداری نوعیت کےہوتے ہیں ۔وہ کہانی میں کسی بھی کردار کو پیش کرکے ایک موضوع یا مسئلے کو اچھے ڈھنگ سے افسانے کا حصہ بناتے ہیں اور ایک پیغام بھی چھوڑ دیتے ہیں یعنی وہ بامقصد کہانیاں لکھتے ہیں۔ ‘‘
رابطہ :- 8493981240