میری بات
ڈاکٹر گلزار احمد وانی
طارق شبنم ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جن کے ابھی تک دوافسانوی مجموعے’’گمشدہ دولت ‘‘ اور’’ بے سمت قافلے ‘‘ منظر عام پر آ چکے ہیں۔ اول الذکر 2020 میں شائع ہوا ہے جس میں کل اٹھائیس افسانے شامل ہیں ۔ جو جی این کے پبلی کیشنز سے شائع ہو کر قارئین سے داد تحسین حاصل کر چکا ہے۔ جس میں نورشاہ کا لکھا ہوا مضمون بھی شامل کتاب ہے۔ اس کے بعد انہوں نے 2021ء میں جموں و کشمیر کے منتخب افسانے ایک تصنیف مرتب کی ہے جس میں جموں و کشمیر کے متعدد افسانوں کو جگہ دی گئی ہے اور پھر 2024 ء میں ان کا ایک اور افسانوی مجموعہ بنام ’’بے سمت قافلے ‘‘ منصہُ شہود پر آکر ہر ادبی حلقے سے داد و پذیرائی صاصل کر گیا۔ مذکورہ افسانوی مجموعے میں کل 44 افسانے شامل کتاب ہوئے ہیں۔ مذکورہ تصنیف کے لیے ایک تو’’اپنی بات ‘‘ کے عنوان پر مصنف کا لکھے ہوئے ایک دوصفحات موجود ہیں اس کے بعد مضمون ’’ بے سمت قافلے کا تنقیدی جائزہ ‘‘ ڈاکٹر فریدہ تبسم کا لکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد’’ طارق شبنم کی افسانوی تخلیقات ‘‘ مضمون ڈاکٹر غلام نبی کمار کا لکھا ہوا ہے۔
طارق شبنم بنیادی طور پر ایک ایسے تخلیق کار ہیں جن کی تخلیق میں پوری انسانیت کا درد چھپا ہوا ہے اور وہ اس چھپے ہوئے درد کو صفحۂ قرطاس پر بکھیر دینے کے متمنی ہے۔ جبھی انسان تنہائی میں اپنے آپ سے مل پاتا ہے تو اسے اپنے آس پڑوس پر بھی نظر جاتی ہے اور اس سوچ کے بیچ منجھدار میں وہ خود کو پا کر اس سے نکلنے کی بہت تگ و دو کرنے لگتا ہے ،اس سعیٔ کو پھر اپنے تخلیقی شعور کے سانچے میں ڈھال کر ہی وہ پھر اپنے منشور کو لاحہ عمل پہناتے ہوئے اپنا تخلیقی جواز بھی فراہم کرنے لگتا ہے اور اسی سبب سے وہ اپنے گرد و نواح کے چھوٹے بڑے واقعات و تجربات اور مشاہدات کو بیاں کرتا ہے۔ جس کے پس منظر میں انسان کی ذات اگر چہ کہیں پر نظر نواز نہیں ہوتی ہے مگر اس آئینے میں اس کے سماج کا عکس نظر ضرور آتا ہے۔
طارق شبنم ایک ذی حس تخلیق کار ہیں اوراس تخلیق کار کے ڈانڈے اس سماج اور معاشرے سے پیوستہ ہیں جس میں قدروں کی پائمالی ، گھریلو تشدد و انتشار کے شعلے ، بزرگوں کے تئیں خدمات میں بے حسی ، سماجی خلفشاری اور معاشرتی ابتری کے اوراق بکھرے ہوئے پڑے ہیں۔اگر ان کی افسانہ نگاری کی بات کی جائے تو اس میں ان موضوعات پر انہوں نے قلم اٹھایا ہے کہ جنہیں قرأت کے بعد ہر ایک قاری یہی محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس طرح کے واقعات اور سانحات کا بر محل استعمال اور وہ بھی اپنی مانوس اردو زبان میں خود ایک تجربے سے کچھ کم نہیں لگتا ہے ۔ جہاں تک تخلیق کار کی بات ہے اسے معاشرہ سب سے پیارا ہے اور اس سماج اور معاشرے کی نگہداشت اس زمیندار کی مانند کرنا چاہتا ہے جو اپنی فصل کو خود رو گھاس سے پرے اور دور رکھنا چاہتا ہے تبھی اس فصل کی اچھی پیداروار برآمد ہو سکتی ہے ، بالکل اسی طرح وہ اپنے سماج و معاشرے سے ہر اس پراگندگی اور کثافت کو دور کرنا چاہتا ہے اور اسی لئے وہ کبھی واویلا اور کبھی آہ و فغاں کی صورت میں اپنے خیالات کو عملی جامعہ پہنانے لگتاہے۔
طارق شبنم کی ادبی زندگی لگ بھگ دو دہائیوں پر محیط ہے۔ اس دوران ان کے وافر مقدار میں کہانیاں یہاں کے روزناموں ، ادب ناموں اور رسائل و جرائد میں چھپ چکی ہیں ملکی و غیر ملکی رسائل تک ان کی تخلیق کاری پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے ’’ گمشدہ تلاش ‘‘ اور ’’ بےسمت قافلے ‘‘کے افسانوی مجموعوں میں موضوعات کو اظہار کی راہ دی ہے ان میں لوگوں کے اندر سوچ کی پسماندگی ، سماجی نابرابری ، سسرال اور اس کی صعوبتیں ، بیٹی اور اس پر سماجی استحصال، دوش و نردوش اور غالب و مغلوب کی درمیانی صورت حال کا عکس کیا خوب کھینچا ہے کہ بے حد خوبصورت بیانیہ دید مان ہو جاتا ہے۔ پریم چند نے تین سو کے لگ بھگ کہانیاں تحریر کی ہیں اور کہا جاتا تھا کہ ملٹن اس لئے زمانے میں سب سے مقبول ہوئے ہیں کہ اسے کوئی پڑھتا ہی نہیں مگر پریم اس لیے مقبول عام افسانہ نگار ہیں کہ سب سے زیادہ ملک میں جس افسانہ نگار پر کتابیں چھپتی رہی ہیں وہ پریم چند ہی ہیں۔ کیونکہ ان کے یہاں حقیقت نگاری دیکھنے کو ملتی ہے،وہ بھی اپنے زمانی اور مکانی حدود میں ۔ جس طرح وزیر آغا لکھتے ہیں:’’ کہانی محض ہوا میں تخلیق نہیں ہو جاتی ، اس کے نقوش کو اجاگر کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک کینوس درکار ہوگااور یہ کینوس زمانی اور مکانی حدود کے تابع ہوگا۔ کوئی واقعہ بہر صورت ایک خاص جگہ اور خاص وقت ہی میں ظہور پذیر ہو سکتا ہے اور اس لیے کہانی لکھنے والوں کو کینوس کے انتخاب پر خاص توجہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یوں زندگی بجائے خود زمین کے کینوس کے انتخاب پر ہی اپنے نقوش اُجاگر کر رہی ہے اور اس میں وہ تمام کہانیاں ہر روز وقوع پذیر ہوتی ہیں جو کہانی کہنے والے کے لیے کچا مواد کا کام دیتی ہیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ یہ ادھوری اورنا تراشیدہ کہانیاں ہیں جو ایک بڑے کینوس کی زمانی اور مکانی وسعتوں میں اس طور بکھری ہوئی ہیں کہ نظر ان کی ڈرامائی کیفیت کا احاطہ کرنے سے قاصر رہتی ہے۔‘‘(اردو افسانہ روایت اورمسائل مرتبہ ۔ گوپی چند نارنگ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ۔ نئی دہلی۔ص نمبر 115_116۔ اشاعت ۔2004)
طارق شبنم کی کئی کہانیاں حقیقت نگاری کے وصف سے متصف ہیں اور کئی کہانیاں جو کہ حقیقت سے کوسوں دور دکھائی دے کر بھی ان کے اسلوب کے سبب سے حقیقت سے مملو دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے کرداروں میں کسی قسم کی تخصیص نہیں ملتی ہے نہ ہی ان کے یہاں ان کے درمیاں کسی قسم کی غیر یکسانت ہی نظر آتی ہے۔ وہ جب کہانی میں بولتے ہیں تو عام زبان میں کرداروں کے منہ سے بولتے ہیں۔ ان کے کردار بقول فریدہ تبسم کہ جیسے تپتے صحرا میں سکون کے سائے سے محروم ہیں ، سکوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
اکثر دیکھا یہ گیا ہے کی ان کے افسانوں میں کرشن چندر کی طرح اپنے وطن کا عکس دور دور تک نظرآتا ہے۔ کرشن چندر کو وادئ پونچھ اورطارق شبنم کو کشمیر اپنے افسانوں کی جائے پناہ دکھائی دیتی ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے افسانوں کی حدود صرف کشمیر تک ہی رکھناچاہتے ہیں بلکہ ان کے افسانوں میں آفاقیت بھی رچی بسی ہوئی ہے۔ انہوں نے ان کرداروں کو اپنے افسانوں میں جگہ فراہم کی ہے جو سماجی اور معاشرتی لحاظ سے پسماندہ ہیں ، مغلوب ہیں ، استحصال کے ہاتھوں پسے ہوئے ہیں۔ ان پر مظالم ڈھائے ہوئے ہیں ۔ عورتیں ہیں جن کی کسک انہوں نے بخوبی بھانپ لی ہے۔ آپ نے بڑے ہی خوبصورت اسلوب سے ایک جینیوین فنکار کی طرح مختلف النوع مسائل کو ابھارا ہے۔ جن میں سماجی ، سیاسی ، مذہبی ، معاشی اور معاشرتی طرز کے مسائل کی خوب منظر کشی کی ہے۔ دراصل ان کے یہاں اقبال کی طرح قوم و مذہب کی فکر رچی بسی ہے۔ جس کو لے کر انہوں نے تہذیبی اور اخلاقی اسلوب میں کئی کہانیوں کو جنم دیا ہے۔ جن میں نیا شہر ، ڈینجر زون ، شکور بھنگی ، سونے کا پیالہ ، حی علی الفلاح اور سوشل ڈسٹنس وغیرہ۔
طارق شبنم کشمیر کے پریم چند ہیں جس طرح پریم چند نے تین سو کے لگ بھگ کہانیاں تخلیق کی ہیں اسی طرح تقریبا ًدو دہے سے طارق شبنم کہانیاں بُنتے ہیں اور جن میں وہ اپنا مشاہدہ ، تجربات اور واقعات کو خاص توجہ دے کر انہیں فرضی سطح پر حقیقت سے آشنا کراتے ہیں۔ ان کے یہاں موضوعات کو برتنے میں ایک ٹھہراؤ ہے جسے دیکھنے کی بےحد ضرورت ہے۔ طارق شبنم کے افسانوں میں روحیں پیاسی ہیں اور انہیں دیدار ِ شوق اور وصال صنم جب تک نصیب نہ ہو تب تک انہیں کسی کروٹ چین نصیب نہیں۔افسانہ ’’لاڈلا‘‘ میں ایک ماں کی روح کس قدر بےقرار ہے کا اندازہ ہو سکتاہے۔’’ نصرت کے رونے کی آوازیں سن کر ان کا گھریلو ملازم رزاق چاچابھی آیا اور اس کی ڈھارس بندھاتے ہوئے سونے کے لیے کہا، لیکن نصرت آخر ماں تھی ، اپنے لاڈلے کو کھانا کھلائے بغیر کیسے سو پاتی ۔ بیٹے کی دوری کا غم کالی ناگنوں کی طرح بل کھا کھا کر اسے اپنے لپیٹ میں جکڑ رہاتھا جب کہ جہانگیر بھی سکتے میں آکر سخت کرب و اضطراب میں مبتلا ہوگیا۔‘‘
طارق شبنم کے یہاں ایک اور قوی اور مستکم موضوع جو ہے وہ ہے عصری حسیت، کشمیر کے نا مساعد والے حالات نے یہاں کے تخلیق کاروں پر اپنی چھاپ ضرور چھوڑی ہے۔ ان حالات میں کچھ لوگ بے گھر ہو گئے پھر ان کا اتہ پتہ بھی کہیں نہیں چلا۔ اس طرح یہ کرب ان کے افسانوں میں پوری قوت کے ساتھ پیش ہوا ہے۔ افسانہ ’’ رخصتی‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں : ’’ سرلا دیوی کا گھرانہ پچھلے کئی ہفتوں سے انتہائی پریشانی اور اضطرابی کیفیت سے گزر رہا تھا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا کیونکہ ڈھائی مہینے پہلے مقرر کردہ تاریخ کے مطابق سرلا دیوی کی بیٹی لکشمی کی شادی کی تاریخ میں اب صرف دودن بچے تھے جبکہ تمام انتظامات کرنے ابھی باقی تھے یہاں تک کہ دولہن کے لئے چند جوڑے بھی میسر نہیں تھے اور نہ میسر ہونے کی کوئی امید تھی۔کیوں کہ شہر و دیہات میں پچھلے دو مہینوں سے زیادہ وقفے سے چل رہی غیر یقینی صورت حال ۔۔۔۔سرلا دیوی کا کوئی رشتہ دار یا اپنے فرقے کا کوئی بھی فرد یہاں رہائش پذیر نہیں تھا ۔ نامساعد حالات کے چلتے انہوں نے برسوں پہلے دوسرے شہر منتقل ہو کر وہیں سکونت اختیار کر لی تھی‘‘۔
طارق شبنم ہمہ وقتی فن کار ہیں ۔آپ چلتے چلتے کھوئے کھوئے سے لگتے ہیں۔ دراصل ان کے اندر ایک افسانوی جہاں آباد ہے ۔ جس کے کرداروں کے مسائل اور غم و اندوہ کی کہانیاں اس تخلیق کار کے اندرون اور بیرون کو بر انگیخت کر دیتی ہیں۔ جس سے کئی کہانیوں کے آغاز ہی میں کہانی کا نچوڑ نکل کر پھر اس کو مکمل افسانے تک پہنچنے ہی نہیں دیتی ہے ۔ جس سے تخلیق کار کو اس طرف اپنا دھیان مبذول کرنا ہوگا ۔ بعض کہانیوں میں انسان اچنبھے میں پڑے بغیر نہیں رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’شکور بھنگی ‘‘ افسانہ جس میں شکور کے نام کی حج بیت اللہ جانے کا قرعہ نکل آتا ہے۔’’ قرعہ اندازی میں شکور بھنگی کے نام کی پرچی نکلتے ہی نتیجے کے انتظار میں دل تھام کے بیٹھے مل کے مزدوروں میں ہل چل مچ گئی اور وہ مایوسی کے عالم میں اس کی نکتہ چینی میں جٹ گئے۔واہ کیا زمانہ آگیا ہے۔۔۔۔۔ جسے کلمہ یاد نہیں وہ حج پر جائے گا۔سلام الدین نے لمبی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔’’ آج تو مجھے اپنے مالک پر بھی شک ہو رہا ہے، ورنہ ہر سال اسی بھنگی چرسی کا نام کیوں نکل آتا ہے۔‘‘
یہاں افسانہ نگار اپنے کرداروں کے سنگ جینا چاہتا ہے۔ وہ اپنی زبان نہیں بولتا ہے وہ اپنی بولی نہیں بولتا ہے بلکہ کرداروں کی زبان سے جو کچھ نکلنا چاہئے تھا وہی نکال رہے ہیں۔ ان میں جذباتی وفور کی فراوانی کے ساتھ اس پر اپنی گرفت بھی رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں سے زندگی کی صداقتیں ، فن کا شعور ، اور فن کی بالیدگی اور زیست کے رنگ دکھائی دینے لگتے ہیں۔
ان کے افسانے میں جو سب سے اچھی بات یہ سامنے آتی ہے وہ یہ کہ انہوں نے ڈاکٹر کے پیشے کو ، استاد کے پیشے کو ، یا زندگی سے وابستہ تمام پیشوں کے لوگوں کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھ کر ان کےمسائل میں الجھ کر اور زندگی کے قریب اور دور کے تمام پہلوؤں کی نقاب کشائی کر دی ہے۔
طارق شبنم کی ایک اور خوبی جو اس کے افسانہ بننے میں نظر آتی ہے، وہ اس کا نیچر کے ساتھ انسیت۔ ان کے اکثر افسانوں میں آپ قدرت کی کاریگری کے بارے میں ان کے جذبات میں بہے ہوئے جملے اور عبارات پڑھ سکتے ہیں جہاں سے ایک قاری پہلے پہل اللہ کی بنائی گئی کائنات کے حسن و جمال میں اک پل کے لیے کھو جائیں گے۔
افسانہ نگار اپنے معاشرے کے لوگوں کی نبض کو بھی خوب پہچانتا ہے اور اسے حالات و واقعات پر گہری نظر بھی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ عصری حقائق بیان کرنے میں بھی ہچکچاتے نہیں ہیں۔ اس بارے میں موصوف کے کئی افسانے پڑھنے کے لائق ہیں جن میں ان کا اعلی تخیل جو انہوں نے اپنے سماج و معاشرے کے تئیں بیان کیا ہے۔اس طرح سے یوں کہہ سکتے ہیں کہ طارق شبنم جموں و کشمیر کے افسانوی افق کے وہ چمکتے ہوئے ستارے ہیں جو اپنی آب وتاب کو قائم کرکے اپنی تابناکیوں سے اپنے گرد و نواح کو چمکا رہے ہیں۔
(رابطہ۔ 7006057853)
[email protected]