ہارون ابن رشید ، ہندوارہ
بلا شبہ انسان کا گمراہ ہونااس کی شکست ہے ،انسان کا عظیم ہونا اس کا معجزہ ہے اور انسان کا انسان ہونا اس کی فتح ہے۔ہمیں چاہئے کہ انسانوں کی طرح زمین پر رہنا سیکھیں ۔شائد اسی لئے انسان کو اس دنیا میں لایا گیا ہے تاکہ وہ انسانیت کے ہی بیج بو سکیں۔ بحیثیت انسان ہمیں اپنی زندگی انسانیت کا دامن تھام کر ہی گزارنی چاہیے اورہر ممکن بُرائیوں سے دور رہنا چاہیے۔ عظیم لوگ اس لئے یاد کئے جاتے ہیںکہ انہوں نے اپنی زندگی کابیشتر حصہ اچھے کاموں پر صَرف کیا ہےاوراپنا قیمتی وقت غلط کاموں میں ضائع نہیں کیاہے۔ انہوں نے وقتاً فوقتاً معاشرے کی بھلائی اور ترقی میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔گویا ان شاندار لوگوں کی طرف سےدوسرے لوگوں کی بے لوث مدد کرنے کے ارادے سےہی اُن کی زندگی پروان چڑھی ہے۔ظاہر ہے کہ پرانے زمانے میں بچوں کے لیے اتنی سہولتیں میسرنہیں ہوتیں،جتنی کہ آج ہیں۔ اُس زمانے میں کسی فرد کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول بہت مشکل تھا۔مگر اس جدید دور میں والدین اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دلانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں،تاکہ اُن کے بچے اچھے انسان اور اچھے شہری بن سکیں۔ درحقیقت والدین بچوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے بہت مشقتیں اٹھاتے ہیں۔ اپنی حیثیت کے مطابق اپنے بچوں کی جائز مانگوں کو پورا کرنے کی حتی المکان کوشش کرتے ہیں، پالن پوسن کے ساتھ ساتھ اُن کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔
یہ ایک غلط فہمی ہے کہ والدین انہیں اپنے کیرئیر میں سبقت لے جانے کی تعلیم دیتے ہیں، اُن کی آخری خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ انہیں اچھے انسان بنتے دیکھیں۔ والدین اپنے بچوں کے امتحانات میں ناکام ہونے کا درد تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ غلط راستوں پر چلنے لگیں تو یہ ان کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ روئے زمین پر کوئی بھی ماں باپ اپنے بچوں کےبُربادی نہیں چاہتااور نہ ہی اپنے بچوں کو غلط راستوں پر بُرے کاموں میں ملوث ہونا برداشت کرسکتا ہے۔ اس لئے یہ امر افسوسناک ہے کہ ہماری وادی میںبیشترزیر تعلیم بچے اسکولوں اور کوچنگ سینٹرز جانے کے نام پر والدین کو دھوکہ دے رہے ہیں۔طلباء گھر سے نکلتے ہیں لیکن اپنے اسکول یا ٹیوشن مراکز تک نہیں پہنچتے۔ بے وجہ اور بلا جواز سڑکوں،بازاروں اور پارکوں میں در بدر گھومتے رہتے ہیں۔ کچھ ریستورانوں میں نظر آتے ہیں،منشیات کا استعمال کرتے ہیں اور بیکار چیزوں پر اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں۔بعض جُوا کھیلتے رہتے ہیں اوربیشتر سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ طلباء یہ سب کچھ اپنی یونیفارم میں کرتے ہیں، مقررہ وقت سے پہلے ہی سکولوں سے فرار ہو جاتے ہیں۔ قصور والدین کا بھی ہے جو اپنے بچوں کی مکمل دیکھ ریکھ کرنے کی زحمت تک نہیں اُٹھاتے۔ خاندان اسی گمان میں رہتا ہے کہ اُن کے بچے پڑھ رہے ہیں مگر کڑوا سچ یہی ہے کہ اُن کے بچےبُرائی کے دلدل میں غوطہ زن رہ کر یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ وہ اپنی زندگی خراب کر رہے ہیں۔ طلباء وقت پر تعلیمی اداروں میں نہیں پہنچتے۔ اب کیا ان پر نظر رکھنا اسکولوں یا کوچنگ سینٹرز کی ذمہ داری میں شامل ہے؟ داخلے کے مرحلے میں یہ ادارے والدین کومختلف دعووں اور وعدوںکے تحت پھنساتے ہیں اور بعد میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ سکول اور ٹیوشن سنٹر بچوں کو سکول ٹائم سے قبل کیسے رخصت ہونے دیتے ہیں؟ کیا ان کا فرض نہیں کہ وہ اُن کےوالدین سےبچوں کے آنے جانےکی تفصیل معلوم کریں؟اس طرح معصوم بچے مختلف بُرائیوں اور جرائم کے جال میں پھنس جاتے ہیں جبکہ آج کل نوجوان نسل منشیات کی طرف زیادہ مائل ہورہی ہے۔افسو ناک امر یہ بھی ہے،زیادہ تر طلبا اخلاقی قدروں سے کوسوں دور ہوچکے ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ سرکاری انتظامیہ ،اسکول و ٹیوشن سینٹرز کے منتظمین اور خصوصاً بچوں کے والدین ان باتوں کا سنجیدہ نوٹس لیں۔
(رابطہ۔ 9149635529)
������������������
اسکول اور ٹیوشن سینٹرز جانے والے بچے