ریاست جموں و کشمیر میں مجموعی طور پر آٹھویں دفعہ جب کہ موجودہ ریاستی گورنر این این ووہرا کے دور میں ریاست میں چوتھی بار گورنر راج نافذ ہوا ہے اور اس طرح ریاست ایک بار پھر غیر یقینی صورتحال سے گزر رہی ہے، آخری دفعہ 8 جنوری 2016 سے لے کر 4 اپریل 2016 تک ریاست میں گورنر راج نافذ تھا کیونکہ اس وقت کے ریاستی وزیر اعلیٰ مفتی سعید کی وفات کے بعد بھاجپا اور پی ڈی پی کو دوبارہ حکومت تشکیل دینے میں تقریباً تین مہینوں کا وقت لگا تھا اور ریاستی اسمبلی کو اس دوران معطل رکھا گیا تھا، اس بار بھی گورنر صاحب نے ریاستی اسمبلی کو معطل رکھا ہے اور حکومت بنانے کے راستے کھلے رکھے ہیں۔ تاہم قریب دس دن گزرنے کے بعد بھی نئی حکومت کی تشکیل کے آثارِ دور دور تک نظر نہیں آرہے، اگر چہ بعض حلقے رام مادھو کی سری نگر میں آمد کو نئی ریاستی حکومت کی تشکیل کے لئے در پردہ سرگرمیوں سے جوڑتے ہیں ۔، لیکن ابھی اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ۔موجودہ صورت حال میں کئی جانکار حلقوں کا ماننا ہے کہ ریاستی اسمبلی کو معطل کرنے کے بجائے مکمل طور پر تحلیل کر دیا جائے کیونکہ معطلی کے دوران ممبران اسمبلی صرف قانون سازی کے عمل سے دور رہتے ہیں جب کہ اس دوران انہیں مکمل تنخواہ اور دیگر مراعات حاصل ہوتی ہیں جو کہ ٹیکس دہندگان عوام کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے کیونکہ ممبران اسمبلی کا بنیادی کام قانون سازی اور لوگوں کے روز مرہ زندگی کے مسائل کو اسمبل میں اجاگر کرنا ہوتا ہے، اب جب کہ گورنر این این ووہرا صاحب نے اپنے مشیر بھی مقرر کئے ہیں جنہیں وہ تمام مراعات حاصل ہیں جو کہ ریاستی کابینہ وزراء کو ہوتے ہیں، اس صورت حال میں بے کار بیٹھے ممبران اسمبلی کو معطل ہونے کے باوجود تنخواہ اور دیگر مراعات دینا عام لوگوں کے سمجھ سے بالاتر ہے۔ کچھ عوامی حلقوں کی یہ بھی مانگ کہ موجودہ اسمبلی ممبران کو 2016 کی طرح تین مہینے کی معطلی کے دوران لی گئی تنخواہ بھی اخلاقی طور پر سرکاری خزانے کو واپس کی جانی چاہئے۔ اگرچہ آئینی طور پر ایک ممبر اسمبلی معطلی(suspended animation) کے دوران تنخواہ حاصل کرنے کااستحقاق رکھتا ہے تاہم بہ حیثیت انسان اور سیاسی لیڈر ہر ایک اسمبلی ممبر پہ یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گزشتہ معطلی اور اس بار کی معطلی کے دوران سرکاری خزانے سے حاصل کی گئی تنخواہ اور دیگر مراعات سرکاری خزانے کو واپس کریں، اتنا ہی نہیں بلکہ ریاستی محکمہ منصوبہ بندی اور قانونی ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ معطلی کے دوران ممبران اسمبلی اپنا سی ڈی ایف (constituency development fund) خرچ کرنے کے اہل نہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر ایک ممبر اسمبلی کو تین کروڑ روپے بطور CDF ملتے ہیں اور اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ ممبران اسمبلی اگلے الیکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے اسمبلی کے آخری سال یا دو سال میں اپنا سی ڈی ایف خرچ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف پارٹیوں کے ممبران اسمبلی موجودہ صورت حال میں گورنر صاحب کے گرین سگنل کے انتظار میں ہیں تاکہ وہ اپنا سی ڈی ایف اپنے اپنے حلقہ میں اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرسکیں۔ اس بات کے پیش نظر بیشتر عوامی حلقے اس حق میں ہیں کہ موجودہ اسمبلی کو تحلیل کر دیا جائے تاکہ نہ صرف سرکاری خزانے پہ ممبران اسمبلی کی تنخواہ و دیگر مراعات کا بوجھ ختم ہو سکے بلکہ کسی حد تک غیر یقینی سیاسی صورت حال بھی ختم ہو جائے، کیونکہ بھاجپا نے کئی بار اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ ریاست میں ایک بار پھر حکومت بنانے کی کوشش کرے گی اور اس سلسلے میں ریاستی باجپا کوششوں میں مصروف بھی ہے۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دل بدلی اور Horse trading کے علاوہ ایسا کونسا راستہ ہے جس سے ریاست میں حکومت بنائی جاسکے؟ مین اپوزیشن جماعت نیشنل کانفرنس نے پہلی ہی واضح کیا ہے کہ وہ انتخابات کے حق میں ہے، ان حالات کے پیش نظرسیاسی ماہرین کے خیال میں بہتر آپشن یہی ہوگا کہ ریاستی اسمبلی کو تحلیل کر دیا جائے تاکہ تازہ انتخابات کے لئے راہ ہموار ہو سکے اور کسی بھی قسم کے غیر آئینی اور غیر اخلاقی اقدام کا کو ئی امکان نہ رہ سکے اور ساتھ ہی سرکاری خزانے پر بھی بوجھ ہلکا ہو سکے۔ ایک طرف ریاست جموں و کشمیر میں SSAا سکیم کے تحت کام کرنے والے ہزاروں اساتذہ مکمل طور پر اپنے فرائض انجام دینے کے باوجود تنخواہوں کیلئے ترس رہے ہیں ، دوسری طرف معطل ممبران اسمبلی اپنے اپنے گھروں کے AC کمروں اور سرکاری کوٹھیوں میں بیٹھ کر تنخواہ و دیگر الاونسز (Allowances) حاصل کررہے ہیں۔ یہ کیسا نظام ہے ؟ قابل غور بات ہے کہ بھاجپا پی ڈی پی مخلوط حکومت نے گزشتہ فروری میں ریاستی ممبران اسمبلی کی تنخواہ و مراعات ایکٹ 1960 میں بل نمبر 3، 2018 کے ذریعے ترمیم کر کے ممبران اسمبلی کا روزانہ الاونسز 1000 روپے سے بڑھا کر 2000 کردیا جب کہ سبکدوش ہوئےممبران اسمبلی کا میڈیکل الاؤنسز 5000 سے بڑھا کر 10000 کردیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہر ایک ممبر اسمبلی کو ماہانہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار کی رقم بطور تنخواہ حاصل ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ممبران اسمبلی کی تنخواہ میں پچھلے دس سالوں میں تین بار اضافہ کیا گیا اور آخری بار ریاستی اسمبلی کے ممبران حضرات نے اپنی تنخواہوں میں دو گنا اضافہ کر واکے دم لیا اور 80000 سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار ماہانہ تنخواہ کروادی، جب کہ انہیں تنخواہوں کے علاوہ دیگر بے شمار مراعات اور پنشن بھی حاصل ہے۔ ان تلخ حقائق کی روشنی میں عوامی سطح پر لوگوں میں گھٹن پائی جاتی ہے کہ ایسی اسمبلی کا کیا فائدہ جس کے ممبران اپنی تنخواہ اور مراعات حاصل کرنے کے علاوہ کسی بھی قسم کا قانون سازی کے اختیار سے فی الوقت محروم ہوں اور لوگ تنگ دستی اور غربت سے جھوج رہے ہیں۔اس موضوع پرعمومی رائے یہ بھی ہے کہ موجودہ ریاستی گورنر این این ووہرا صاحب بہ حیثیت گورنر کافی کامیاب ہیں اور انہوں پچھلی ایک دہائی کے دوران انتظامی امور چلانے میں اپنا لوہا منوایا ہے۔جناب این این ووہرا کی سربراہی میں پچھلی تین دفعہ کے گورنر راج میں لوگوں کو کافی راحتیں بھی ملیں ، اگرچہ بعض متنازعہ فیصلے بھی لئے گئے مگر عام لوگوں کواس دور میں کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی ۔یہی وجہ ہے کہ عوام اس موجودہ معطل اسمبلی کے بجائے گورنر صاحب سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اگر آنے والے کچھ دنوں میں سرکاری نہیں بنتی ہے تو موجودہ معطل اسمبلی کو مکمل طور پر تحلیل کیا جائے گا تاکہ مخدوش سیاسی صورت حال کا خاتمہ ہو اور خزانہ ٔ عامرہ کو غیر ضروری اخراجات کے بوجھ سے نجات مل سکے۔
فون نمبر9906649281