نئی دلی// الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ذریعے مقرر کئے گئے تین مبصرین کو ریاست جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تجاویز پیش کرنے کیلئے کہا گیا ہے جو وہ ریاست کا عنقریب ہی دورہ کرنے کے بعد پیش کریں گے۔ واضح رہے کہ پارلیمانی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے کہاتھا کہ جموں وکشمیر میں پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ساتھ ہی اسمبلی انتخابات کا انعقاد سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ممکن نہیں ہے جس کی کئی ریاستی و ملکی سیاسی پارٹیوں نے مخالفت کی تھی ۔تین مبصرین جن میں نور محمد ،ونود زتشی اور اے ایس گل شامل ہیں ،نے منگل کو چیف الیکشن کمیشنر سنیل ارورہ اوردیگر کمشنروںاشوک لاواسااور سشیل چندراکے ساتھ ملاقات کی ۔مقررہ مبصرین کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ جموں وکشمیر کی صورتحال کا جائزہ لے کر اسمبلی انتخابات کیلئے موزون وقت کے بارے میں رپورٹ پیش کریں تاکہ کمیشن ریاست میں اسمبلی انتخابات کے حوالے سے حتمی تاریخوں کا اعلان کرسکے۔میٹنگ کے دوران مبصرین سے گذارش کی گئی کہ وہ جلد ہی ریاست کا دورہ کریں ۔الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری بیان کے مطابق تینوں مبصرین جلد ہی ریاست کا دورہ کرکے اس حوالے سے اپنی رپورٹ تیار کریں گے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جموں وکشمیر اسمبلی جب سے تحلیل کی جاچکی ہے ،الیکشن کمیشن 6ماہ کے اندر اندر نئے انتخابات عمل میں لائیں جو کہ مئی میں ختم ہورہی ہے ۔جہاں ایک تصور یہ پایا جارہا تھا کہ ریاست جموں وکشمیر میں لوک سبھا انتخابات کے ساتھ ساتھ ہی اسمبلی انتخابات بھی منعقد کرائے جائیں گے تاہم ریاست میں سیکورٹی صورتحال اور بھارت پاک سرحدی کشیدگی کے بعد اس خیال کی نفی ہوئی ۔مرکزی و ریاستی حکومت بیک وقت اسمبلی و پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے مخالف رہیں تاہم ریاست کی بیشتر سیاسی پارٹیاں اسکی حامی نظر آئیں ۔ریاست کی کم و بیش سبھی سیاسی پارٹیوں نے چیف الیکشن کمشنر کے حالیہ دورہ کے دوران بیک وقت انتخابات کاموقف پیش کیا تھا ۔جموں وکشمیر اسمبلی کی6سالہ مدت16مارچ2021میں ختم ہونے والی تھی تاہم مخلوط پی ڈی پی۔بی جے پی سرکار ختم ہونے کے بعد انتخابات کی ضرورت پیش آئی۔واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اسمبلی کا مدت کار 5برس پر محیط ہوتا ہے ۔
تمل ناڈو اسمبلی نشستوں کے ضمنی چنائو کیلئے
کا سپریم کورٹ سے رجوعDMK
نئی دہلی//سپریم کورٹ نے منگلوار کو ڈی ایم کے کی اُس عرضی کو منظورکیا جس میں الیکشن کمیشن کوتمل ناڈ اسمبلی کی تین خالی نشستوں کیلئے ضمنی چنائومنعقد کرانے کیلئے نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی ہدایت دینے کی اپیل کی گئی ہے ۔چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت میں عدالت عظمیٰ کے بنچ نے کہاکہ عرضی کی سماعت15مارچ کوہوگی۔پارٹی نے انتخابی پینل کو تیروپران کندرم ،اوٹاپدرم اور اراواکروچی اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخاب کیلئے نوٹیفیکشن جاری کرنے کی ہدایت دینے کی استدعا کی ہے ۔سینئرایڈوکیٹ ابھیشیک سنگھوی جو ڈی ایم کے کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے ،نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 21میں سے18خالی اسمبلی نشستوں کے ضمنی انتخاب پارلیمانی چنائو کے ساتھ ہی منعقد کرانے کیلئے نوٹیفیکشن جاری کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ تمل ناڈ میں باقی ماندہ تین اسمبلی حلقوں کیلئے بھی ضمنی چنائو کی نوٹیفیکیشن جاری کی جانی چاہیے ۔پارٹی نے الیکشن پینل کو بھی تین نشستوں پر ضمنی چنائو کرانے کیلئے یاداشت پیش کی ہے ۔تمل ناڈ کے چیف الیکٹورل آفیسر ستیہ برتارائو نے اتوار کو کہا کہ ان تین اسمبلی حلقوں میں چنائو عرضیاں مدراس ہائی کورٹ میں زیر التواء ہونے کی بنا پر ضمنی انتخاب نہیں ہوسکتے۔
اسمبلی انتخابات سے فرار کیوں؟
الیکشن کمیشن سے یچوری کا سوال
سرینگر//سی پی آئی (ایم) کے جنرل سیکرٹری سیتا رام یچوری نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی طرف سے جاری شیڈول پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریاست جموںوکشمیرمیں لوک سبھا کا انعقاد ممکن ہے تو اسمبلی انتخابات کے انعقاد سے حکومت کیوں کترا رہی ہے؟۔ستا رام یچوری نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے ملک بھر میں لوک سبھا انتخابات سے متعلق شیڈول جاری کئے جانے پر اپنے رد عمل میں بتایا کہ اگر ریاست جموںوکشمیر میں لوک سبھا انتخابات کا انعقاد ممکن ہے تو اسمبلی انتخابات کے انعقاد سے حکومت کیوںکترا رہی ہے؟ انہوں نے سوالیہ انداز میں مرکزی و ریاستی حکومتوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ اگر ریاست جموں وکشمیر میں لوک سبھا انتخابات کو منعقد کرنا ممکن ہے تو اسمبلی انتخابات کے انعقاد میں سیکورٹی بندوبست کا فلسفہ کیوں سامنے لایا گیا؟ ’’اگرریاست جموں وکشمیر میں لوک سبھا انتخابات سے متعلق تاریخوں کا اعلان کیا گیا تو اسمبلی انتخابات سے متعلق سیکورٹی کو کیوں مسئلہ بنایا گیا؟‘‘۔خیال رہے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے گزشتہ دنوں ملک بھر کی ریاستوں میں لوک سبھا انتخابات سے متعلق حتمی شیڈول جاری کیا گیا جس کے بعد ریاست جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات کو فی الحال تعطل میں رکھا گیا جس کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں نے مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔سی پی آئی (ایم) لیڈر کا کہنا تھا کہ اگر مرکزی حکومت کومسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ کشمیری عوام کو علیحدگی پسندوں سے الگ تھلک رکھیں۔انہوں نے بتایا کہ معاملے کے بامعنی حل کی خاطر دو چیزیں انتہائی اہم ہے جن میں اعتماد سازی کے اقدامات اور تمام فریقین کے ساتھ بات چیت شروع کریں۔ماضی قریب میں مرکزی حکومت کی جانب سے بھیجے گئے کل جماعتی وفد سے متعلق یچوری کا کہنا تھا کہ جب کل جماعتی وفد نے ریاست کا دورہ کرتے ہوئے یہاں حالات کا زمینی سطح پر جائزہ لینے کی کوشش کی تو ہم نے مرکزی حکومت کو جو سفارشات پیش کیں ان میں معاملات کوپرامن ذرائع سے حل کرنے کے لیے ’اعتماد سازی اقدامات ‘ اور ’مسئلہ کے تمام فریقین کے ساتھ مل بیٹھ کر بات چیت ‘ کرنا شامل تھا۔سیتا رام یچوری نے بتایا کہ تین سالہ وقفے کے بعد ریاست میں زمینی صورتحال میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں تاہم مسئلہ کے بامعنی حل کی خاطر وہی فارمولہ آج بھی قابل عمل ہے جو وفد نے دورے کے دوران پایا۔اس موقعے پر انہوں نے بھارتی فضائیہ کی طرف سے سرحد پار بالاکوٹ میں کی گئی کارروائی پر سیاست کرنے سے پرہیز کا مشورہ دیا۔ انہوں نے بتایا کہ سرحد پار فضائی سٹرائیک کے بعد ہم فضائیہ کی کارروائی کی سراہنا کرنے کے ساتھ ساتھ متحدہ ہیں۔ سیتا رام یچوری نے بتایا کہ سرحد پار کی گئی کارروائی پر بی جے پی لیڈر امت شاہ نے سیاست کرنا شروع کردی جب انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ بی جے پی کانگریس کی طرح نہیں ہے۔