شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے اکثر ائمہ مساجد اور علمائے دین نے اسلام کو اس کے پانچ ارکان تک محدود کر دیا ہے اور اپنی تقاریر میں اکثرو پیشتر لوگوں کو نمازوں وغیرہ کی پابندی پر خاصا زور دیتے رہتے ہیں لیکن قران کریم کا بہ نظر غائر مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت لازم بنادی گئی ہے، وہیں اسلامی زندگی کے سماجی پہلوؤں کے اعتبار سے بالخصوص تزکیہ اخلاق پر کافی زور دیا گیا ہے۔ایمان کے بعد دین کا اہم ترین مطالبہ تزکیہ اخلاق ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خلق اور خالق دونوں سے متعلق اپنے عمل کو پاکیزہ بنائے۔ یہی وہ چیز ہے جسے عمل صالح سے تعبیر کیا جاتا ہے ‘‘۔ انسان کو سماجی حیوان کہا گیا ہے۔ وہ سماج کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ اس لئے اسکو سماج میں رہ کر مختلف سماجی آداب و اخلاق کا مظاہرہ کرکے ایک صحت مند معاشرہ تعمیر کرنے کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ یوں تو کوئی بھی مذہب انسانوں کے ا خلاقی اقدار اور سماجی آداب و اطوارکے بحث سے خالی نہیں ہے لیکن اسلام نے چند ایسے سماجی آداب کی نشاندہی کی ہے جو اس کو ایک ممتاز دین سمجھنے میں بہت مددگارثابت ہوتے ہیں۔ان آداب کا مطالبہ کرکے اسلام نے اپنی آفاقیت اور افادیت کو مسلمانوں تک محدود نہیں کیا ہے بلکہ کوئی بھی قوم ان پر عمل پیر ا ہوکر ایک باشعور معاشرہ تعمیر کرکے اپنے ملک کے لئے توکیا پوری دنیا کے لئے ایک مثال قائم کرسکتی ہے۔ قرانِ مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ سماجی آداب ایک باشعور وذمہ دار معاشرہ تعمیر کرنے کے لئے بے حد ضروری ہیں۔ حال ہی ہندوستانی عدالت عظمیٰ نے کسی کی ذاتی زندگی میں بے جا مداخلت کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور اس طرح ہندوستانی شہریوں کے ذاتی حقوق کو پامال ہونے سے بچایا ہے لیکن قران مجید نے چودہ سو سال پہلے ذاتی زندگی میںمداخلت بے جا کو غیر اخلاقی مان کر مسلمانوں کو کسی بھی گھر میں بلا اجازت اندر جانے میں ہی نہیں بلکہ اندر جھانکنے کو بھی غلط ٹھہرایا ہے۔ چناںچہ سورہ نور کی ۲۷ویں آیت میں مومنوں کو مخاطب ہوکر کہا گیا ہے: ’’اے ایمان والو!اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میںداخل نہ ہوا کرو جب تک نہ گھروالوں سے اجازت لے لو اور گھروالوں پر سلام نہ بھیجو۔ یہ طریقہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھوگے‘‘۔ اس آیت میں دو چیزوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے: ایک یہ کہ پہلے اجازت طلب کرو اور دوسرا جب اندر سے جواب ملے تو پہلے سلام کرو۔ ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ جب اندر سے کہا جائے کہ کون ہو تو ’’میں‘‘ کہنے کے بجائے اپنا نام بتایا کرو۔ یہی نہیں اس سورہ کی اگلی آیت میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ جب تک اجازت نہ ملے اس وقت تک اند ر مت جائو اور اگر تم سے کہا جائے واپس چلے جائو توواپس چلے جائو کیونکہ یہی پاکیزہ طریقہ ہے۔ ان آیات میں ایک واضح ہدایت درج ہے کہ کسی بھی غیر کے گھر میں بلا اجازت داخل ہونا ایک معیوب بات ہے اور ایسا کرنے سے اس گھر کی پردہ داری مجروح ہو جاتی ہے۔ حالانکہ آج کل کے دور میں شہروں میں عام گھروں میںبیرونی دروازوں پر گھنٹیاں ( بیل ) اور کچھ خاص گھروں میں نئے آلات جس کی مدد سے گیٹ پر کھڑے انسان کی شکل بھی اندر بیٹھے بیٹھے دیکھی جاسکتی ہے ،لگے ہوتے ہیں لیکن کئی لوگ اس کا استعمال کرنے کے عادی نہیں ہوتے ہیں یا شان ِ بے نیازی کے ساتھ اس کو نظر انداز کر تے اور بلاکسی اخلاقی جواز کے گھر بلکہ کبھی کبھار کمرے کے اندر داخل ہوجاتے ہیں۔
دوسری چیز جس سے اسلام انسان کو روکتا ہے، وہ ہے اپنی آوازکواونچا کر نا ۔ کئی لوگ بلاوجہ اپنی آواز کو اونچا کرتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ ایسا کرکے وہ دوسرے کی دل آزاری اور سمع خراشی کرنے کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔اپنی آواز کو پست اور تکبر سے چلنے پر قران مجید میں سخت وعید آئی ہے۔ اس سلسلے میں سورہ الفرقان کی آیت نمبر ۶۳ میں کہا گیا ہے: ’’رحمٰن کے اصلی بندے وہی ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جب کوئی جاہل ان کے منہ لگتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں تم پر سلام ہو‘‘۔ تکبر وہم ہستی نے تو شیطان کو ہمیشہ کے لئے رجیم ٹھہرا دیا اور مسلمانوں کے لئے لازم ہوا کہ ہمہ وقت شیطان کے شر سے محفوظ رکھنے کی دعا مانگا کریں۔ نرم لہجے کی وجہ سے ہی کئی کافر مسلمان ہونے پرراغب ہوگئے تھے جس کا اظہار قران کریم میں ان الفاظ میں ہوا ہے:ـ ’’(اے پیغمبرؐ) اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیںتم تند خو اور سنگ دل ہوتے تویہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے آخری پیغمبر ؐ کو’’ خلقِ عظیم ‘‘کے اعلیٰ مقام کی بشارت عطا کی ، پھر بھی آپ ؐ کی نرم روی اور نرم گفتاری کی تعریف کئے بغیر نہیں رہا جاسکا اور سی ذاتی خوب کارانہ وصف کی بدولت اسلام میں لوگوں کا داخل ہونا آسان ہوگیا۔ سورہ اسراء کی آیت نمبر ۳۷ میں بھی زمین پر متکبرانہ انداز میں چلنے کی ممانعت کی گئی ہے اور انسان کو اپنی حیثیت کا احساس کرانے کے لئے کہا گیا کہ زمین پر اکڑ کر چلنے سے نہ تم زمین پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتے ہو۔ سورہ لقمان کی آیت نمبر ۱۸ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ ’’لوگوں سے منہ پھیر کربات نہ کر و اور نہ زمین پر اکڑکر چلو، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ہے ‘‘۔ اسی سورہ کی اگلی آیت میں چلنے میں اعتدال اور آواز کو پست رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اونچی آواز کو گدھے کی آواز سے مشابہت دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ گدھے کی آواز سب سے بری ہے۔ سورہ طہٰ کی آیت نمبر ۴۴ میں نرم گفتاری کا ذکر کرتے ہوئے بتا یا گیا ہے: ’’اس ( یعنی فرعون) کے ساتھ نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے اور ڈر جائے‘‘۔اچھے اخلاق برے سے برے انسان کو آپ کا گرویدہ بنا سکتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آنا بھی ایک عبادت ہے۔ چناںچہ سورہ النساء کی آیت نمبر ۳۶ میں جہاں اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرانے پرزور دیا گیا ہے، وہیں پر ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں، حاجت مندوں، ہمسایوں(چاہے نزدیک کے ہوں یا دور کے)، دوستوں، مسافروں اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی واضح کیا گیا ہے۔ حالانکہ اگر کوئی مقروض شخص قرض کی ادائیگی کے لئے مہلت مانگتا ہے تو اس پر رحم کرنے کی تلقین بھی سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۷۰ میںحسن سلوک کے طور پر کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کو اور مہلت دے دو جب تک وہ قرض ادا کرنے کے قابل نہ ہوجائے گا۔ اللہ کے ہاں وہی عزت پائے گا جو نرم دل اور استکبار نہ کرے۔ قریشی ہو یا سید، ہاشمی ہو یا کوئی اور چہرے کا رنگ کالا ہو یا سفید، غریب ہو یا امیر اللہ کے نزدیک صرف اور صرف تقویٰ ہی ممتاز بنا سکتا ہے۔ مندرجہ بالا آیات اس بات کی بھی غماز ہیں کہ پست آواز میں بات کرنابھی ایک عبادت ہے، چاہے وہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا ہو یا اس کے بندوں کے ساتھ ہم کلامی ہو۔ وابتغ بین ذالک سبیلا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عبادت ہو یا کلام درمیانہ روی اختیار کرنا باعث ثواب ہے۔ جب ان خدائی احکامات کی روشنی میں اپنا جائزہ لیتے ہیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ بات کریں گے تو تقریباً چلاکر اور دعا مانگیں گے تو گلا پھاڑ پھاڑ کے۔ خصوصاً معابد اور مساجد کے لائوڈ اسپیکروں سے اللہ تعالیٰ کو اس طرح چلا چلا کر پکارا جاتا ہے جیسے نعوذباللہ نعوذ باللہ نعوذباللہ ہم کسی بہرے کو بلا رہے ہوں۔ کئی لوگ تو پیغمبرؐ کریم کا نامِ مبارک بھی اس طرح لیتے ہیں جیسے کسی عام انسان کا۔ حالانکہ قران مجید میں لا ترفعو اصواتکم فوق الصوت النبی کا حکم دے کر مسلمانوں پر لازم قرار پایا ہے کہ ان کا نام مبارک نہایت احترام اور عزت سے لیا جائے۔ یہی بات دوسری جگہ نماز کے لئے بھی کہہ دی گئی ہے: ’’ولا تجہر باالصلوٰتک ولا تخافت بہاوابتغ بین ذالک سبیلا‘‘ ۔ مفسرین قران نے اس جملے کو جہری نمازوں کے آداب کے متعلق بتایا ہے اور وضاحت کی ہے کہ امام مسجد کے لئے حکم ہے کہ جہری نمازوں میں قرآت نہ زیادہ اونچی آواز میں کرے کہ باہر لوگ سنیں اور نہ اتنی دھیمی آواز میں کرے کہ مقتدی بھی نہ سنیں۔ اس لئے درمیانہ آواز میں قرآت پڑھنا واجب بتایا گیا ہے اور ہم ہیں کہ کہیں ایک امام صاحبان میں لائو ڈاسپیکروں کا اتنا چسکہ ڈالا ہے کہ وہ ایک صف ِنماز کو اس کے بغیربھی پڑ ھانا اپنی کسر شان سمجھتے ہیں۔ حاصل ِبحث یہ ہے کہ آواز پست رکھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ لوگ آپ سے نہ کترائیں اور آپ قرآن وحدیث کے فرمودات سے غفلت نہ برتیں۔
رشوت ستانی کی لعنت ایک اور بڑا ناسور ہے جس کی طرف قران کریم ہمیں توجہ مبذول کراتا ہے۔ ائمہ مساجد، خطیب اور علماء دین وغیرہ وغیرہ حضرات اپنی تقاریر میں اس سماجی ناسور کے تدارک کے لئے وعظ و نصیحت تو کر تے ہیں لیکن ان کی یہ تقاریر صدابصحرا کے سوا کچھ نظر نہیں آتی ہیں۔قران مجید میں سورہ بقرہ کی ۱۸۸؍ ویں آیت میں ناجائز طریقے سے ایک دوسرے کی دولت ہڑپنے یا کسی حکمران کو کسی امداد کے لئے رشوت دینے کو ایک سخت گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسالم کی نگاہ میں کوئی بھی غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام ہر لحاظ سے سماج کے لئے بہت ہی خطرناک ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے علماء دین نے اسلام کو نماز، روزہ، زکاتہ ، حج وغیرہ تک محدود کر دیا ہے۔ حالانکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس میں سماجی آداب اور اخلاقیات کے بارے میں کلیدی نوعیت کے کافی احکامات شامل ہیں مگر ان چیزوں پر ہمارے اکثر ائمہ مساجد اور علماء اس جانب کم ہی توجہ دے رہے ہیں ،شاید اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے ان کے وہ مرید ، مقتدی اور سامعین جو اس ناسور سے خود متاثر ہوں وہ ناراض نہ جائیں۔ اس جیسے اہم سماجی موضوعات کو خطابات میں نظرانداز کر نے کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ کشمیری مسلمان جورشوت اور غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی دولت کو مال غنیمت سمجھتے ہیں ،وہ حرام کمائی پر نادم ہونے کے بجائے اس پر فخر کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں شادیوں پر رسومات بد کے بارے میں اخباروں اور سوشل میڈیا پر کافی شور مچایا گیا لیکن حقیقت یہ کہ یہاں ہم ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لئے نت نئے رسم ایجاد کرتے ہیں یاغیر مسلموں کی بے ہودہ تقلید کرنے فخرمحسوس کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خاص کر علمائے دین اور ائمہ مساجد اسلام اور قران مجید کو ایک ہمہ جہت اور مکمل ضابطۂ حیات کے طور پیش کر نے میں پہلو تہی نہ کریں اور جہاں وہ پانچ ارکان اسلام کی توضیح وتشریح کرکے لوگوں کو بتایں کہ حقوق اللہ کیا ہیںاور ان کی بنیاد پر اسلامی معاشرے کی کلی طہارت کے لئے حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کتنے لازم وملزوم ہیں ۔ بندوں کے حقوق پائمال کرکے اگر ہم حقوق اللہ کی پابندی بھی کرتے ہیں تو فائدہ کیا ہے؟ صفر بھی نہیں ، پھر تو نماز بے حضور، روزہ محض فاقہ کشی، زکوٰۃ بے مصرف، حج ایک لا حاصل سفر ہوکر رہ جاتا ہے ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے اور شرک کے سوا ہر کوئی گناہ معاف بھی کر سکتا ہے لیکن اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اُن سے حسن سلوک کرکے ہم اللہ کی رحمت بھی پاسکتے ہیں۔ قرآن مجید نے جہاں متذکرہ بالا سماجی آداب ملحوظِ نظر رکھنے کا حکم دیا ہے، وہاں اس میں اور بھی کئی اخلاق سوز حرکتوں مثلاً غیبت، بد خواہی ، جلن وحسد ،افواہ بازی، چغل خوری، کسی کی ٹوہ میں لگا رہنا،اوہام کی پیروی، عہد کی پابندی میں غفلت، ناپ تول میںڈنڈی ماری وغیرہ رذائل کے بارے میں بھی مسلمانوں کو خبردار کیا ہے۔ ہمارے پاس اتنا اعلیٰ وارفع ، امن پرورانہ، انسان دوست اور ہر درد کی دوا والا جامع اور مقتدر لائحہ عمل من وعن موجود ہیں مگر اس کے باوجود ہم مسلمان تزکیہ ٔاخلاق کی بجائے زیادہ تر رذایل کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ نتیجتاً ہر طرف مصیبتوں کے پہاڑ ہم پر ٹوٹ رہے ہیں۔
نوٹ :مضمون نگار سابقہ صدر شعبہ انگریزی،
سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیرہیں
9419043802