مومن کامقصد ِحیات عبادتِ رب ہے اور عبادت ساری زندگی کو محیط ہے۔اس عبادت کا حرکی تصور ہی عبادت کو کامل کر دیتا ہے۔آدمؑ سے قیامت کی صبح تک تحرک اور کشمکش ہی انسانوں کا مقدر ہے۔ یہ حرکت اور کشمکش اجتماعی شکل میں موجود ہونے کی صورت میں تحریک کہلاتی ہے ۔تحریک اپنے کامل فکری ونظری شعور کے ساتھ چلے تو کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیںاور تحریک کا پایہ تکمیل کو پہنچ جانا آسان ہو جاتا ہے ۔یو تحریک میں تحریکی شعور کوبنیادی اہمیت حاسل ہے۔تحریکی شعور کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں :ایک ہے فکری یا علمی شعور اور دوسرا ہے عملی شعور ۔جب تک نہ فکری شعور پختہ ہو عملی شعور کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا ۔فکری شعور میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ جس تحریک کے ساتھ آپ وابستہ ہیں اس کے حق ہونے پر آپ کو یقین ہو،ورنہ اگر آپ خود تذبذب کا شکار ہوں تودوسروں تک تحریک کا پیغام کیا پہنچایے گے۔الحمد للہ تحریک اسلامی کے حق ہونے پر قرآن وسنت ،سیرت اور اسلامی تاریخ سے بے شمار دلائل موجود ہیں۔تحریک اسلامی کا نصب العین قرآن سے ہی ماخوذ ومستفاد ہے اور قرآن حکیم کی بے شمارر آیات تحریک اسلامی کے مقصد ،نصب العین اور پروگرام پر محیط ہیں۔ان دلائل کو تحریک اسلامی کے لٹریچر میں محکم اور د ل نشین انداز میں پیش کیا گیا ہے جس کو بار بار پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔مولانا مودودی کی کتابیں ’ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں،تجدید واحیائے دین ‘تحریک اور کارکن ،خطبات وغیرہ ،مولاناسید حامد علی کی کتاب ’قرآنی اصطلاحات اور علمائے سلف و خلف،مولانا صدرالدین اصلاحی کی کتاب ’فریضۂ اقامت دین ،مولاناسید عروج قادری کی کتاب’ اقامت دین فرض ‘ہے،ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کی کتاب’ اقامت دین اور نفاذشریعت ‘کے علاوہ ڈاکٹر انیس احمد ،پروفیسر خورشید احمد ،ڈاکٹر محمد رفعت ،مولاناسید جلال الدین عمری اور دیگر تحریکی رہنماوں کی متعدد کتابیں اور مضامین اقامت دین کی تعبیر ،تشریح اور توضیح پر موجود ہیں۔ان سے استفادہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ غرض تحریک اسلامی کے مقصد اور نصب العین کو سمجھنا ہی علمی اور فکری شعور کی پہلی منزل ہے اور اس کے بغیر تحریک کے ساتھ استقامت کے ساتھ آگے بڑھنا محال ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ کسی تحریک کے ساتھ وفا نہیں کرتے، وہ اصل میں علمی یا فکری شعور میں تذبذب کا شکار ہوتے ہیں۔
عملی شعور کا مشاہدہ ہم تین سطحوں پر کر سکتے ہیں :دستور،مشاورت اور امیر۔ان تینوں سطحوں پر ہمارا طرز عمل ہی ہمارے فکری و عملی شعور کی عکاسی کرتا ہے ۔اسلام میں اگرچہ اصلی اور بنیادی sanctity اور sacredness قرآن و سنت کو ہی حاصل ہے ،تاہم ابتداء تا انتہا قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب ومتشکل تحریکی دستور ، مجلس مشاورت اور منتخبہ( بیعت یافتہ ) امیر تحریک کو بھی نظم کے دائرے میں اور محدود پیمانے پر واجب الاطاعت ہونے کاشرف حاصل رہتاہے تاوقتیکہ یہ قرآن وسنت کے تابع رہیں۔ کسی باطل یا ناحق کام اور حکم میں ان کی اطاعت کاعالم گمان میں بھی نہیں سوچا جاسکتا ۔ سمع وطاعت کے نظام کو بہر حال تحریک کے مفاد میں برقرار رکھنا ہی رکھنا ہوتا ہے۔ ہم عملی شعور میں کتنے پختہ ہے، یہ ہمارے دستور ،مشاورت اور امیر کی اطاعت سے بھی پتہ چلتا ہے۔ان تینوںسطحوں کو نیچے ہم ذرا تفصیل سے پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
دستور:
دستور کسی بھی جماعت کا ایک اساسی دستاویز ہوتا ہے اور تحریک اسلامی کا دستور من وعن قرآن و سنت سے ہی استنباط ہوتا ہے۔دستور کی ایک ایک شق کی حتی الوسع پابندی کر نے میںہی تحریک کی زندگی مضمر ہوتی ہے اور دستور پر لفظاً و معناًعمل پیرا ہو نا عملی تحریکی شعور کی صداقت کا پہلا زینہ ہوتا ہے۔ایک تحریک میں مختلف قسم کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔تنظیم میں شامل ہونے کے باوجود ہر ایک کی اپنی ذاتی رغبت اور نجی میلانات ہوتے ہیں۔یہ ایک فطری معاملہ ہے اور ہم ذاتی رغبتوں اور د لچسپیوں سے الگ نہیں ہو سکتے۔مطلب یہ کہ کسی کا رجحان سیاسی ہوتا ہے اور وہ تب تک مطمَن نہیں ہوتا جب تک نہ سیاسی عمل تحریک میں غلبہ پا لے۔ایسا کارکن الیکشن عمل کو ہی تحریک کی کامیابی کی ضمانت سمجھتا ہے۔باقی چیزوں کو وہ ثانوی حیثیت دیتاہے۔اسی طرح کسی کارکن کی ذاتی رغبت تبلیغ وتطہیر کی طرف ،کسی کی جد جہداور کشمکش کی طرف ،کسی کی علمی اداروں کی طرف ،کسی کی خدمت خلق اللہ کی طرف ،کسی کی تصوف کی طرف ، کسی کی قلمی جہاد کی جانب اورکسی کا مزاج کسی اور مفیدکام کی طرمرکوز ہوتا ہے ۔ مزاج اور رغبت کا یہ تنوع تحریک کی صفوں میںفرداًفرداً یوں جھلکتا ہے کہ جو جس بات کی طرف زیادہ میلان رکھتا ہو وہ اسی بات کا تحریک میں غلبہ چاہتا ہے اور اپنے اس میلان کو تنظیم اور تحریک کا اصلی اور بنیادی کام سمجھتا ہے۔مگر وسیع ترتحریکی شعور کا مطالبہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی میلانات کو تر ک نہ بھی کریں مگر اپنی سوچ کو حرف ِآخر نہ سمجھ کر تنظیم پر اسے زبردستی ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں۔ البتہ انتشار پھیلائے بغیر اپنی بات کو تحریک کے بنیادی اصول ومبادی کو چھیڑے بغیر تنظیم کے طریق کار اور ترجیحات کے بارے میں سنجیدہ تبادلہ خیال کی مشروط آزادی ہونی چاہیے ۔اور ہماری ہر ذاتی رغبت اور دلچسپی پر تحریکی شعور کا غلبہ ہونا چاہیے اور اس کو اتنی اولیت ملنی چاہئے کہ اگر ہمارے نقطہ ٔ نظر سے اتفاق نہ بھی کیا جائے تو ہمیں اپنے خیال پر اصرار نہیں بلکہ رجوع کر نا چاہیے۔اگرچہ تحریک میں ہر ایک کام کا اپنا مقام اور مرتبہ ہوتا ہے اور تحریک کا دستور اپنے اپنے مقام پر ا ہداف اور اختیار ات کی توضیح بھی کرتا ہے اور تعین بھی، لیکن تحریک میں بارہا کئی لوگ انتہائی اہم اثاثہ ہوتے ہیں جن کا خلوص ، قائدانہ صلاحیت ، اثر و رسوخ اور کام تحریک میں بہت بھاری بھر کم ہوتا ہے کہ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحریک صفوں میں ان شامل نہیں ہوں گے تو تحریک کا قافلہ دھیما پڑے گا۔ ہاں،یہ لوگ اگرکبھی دستور کی خلاف ورزی کرتے ہیں تب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ دستور کو اہمیت دی جائے یا ان افراد کی ذاتی وجاہت اور اوصاف کو۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اصولی طور اصل اہمیت دستور کو حاصل ہوتی ہے نہ کہ افراد کو۔اخوان المسلمون کے چوتھے مرشد عام مصطفیٰ مشہور مرحوم نے اپنی کتاب’’دعوت دین کی راہ‘‘ میں اس چیز کو بہت اچھی طرح سمجھایاہے۔ان کا ماننا ہے کہ بندہ چاہئے کتنا ہی بااثر اور اہم ہو مگر دستور اور فرد کے درمیان نزاع کے معاملے میں فرد کو ہی نکال باہر کر دینا چاہئے نہ کہ دستور کے ساتھ کسی قسم کا کمپرومائیزکرنا چاہیے۔افراد آتے جاتے رہتے ہیں اور تحریکیں اپنا کام انجام دیتی رہتی ہیں ۔افراد کے آنے جانے سے تحریکوں کے کام کاج پر کوئی جوہری فرق نہیں پڑتا ۔اس بات کو محمد بشیر جمعہ نے اپنی کتاب ’’شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر "میں بہت ہی بہترین مثال سے سمجھایا ہے۔وہ ایک جگہ یوں رقمطراز ہیں :ــ’’زندگی کی پسنجر ٹرین چلتی رہتی ہے،انسان اس ٹرین میں مہیا جگہ پر رہ کر کچھ کام کر لیتا ہے انسان کے چڑھنے سے ممکن ہو دیگر مسافروں کو فائدہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تکلیف ہو ،مگر یہ حقیقت ہے کہ انسان چاہئے جتنا بااثر اور با صلاحیت ہو،اس کے اُترنے سے ،چلے جانے سے اس پسنجر ٹرین پر کوئی اثر نہیں پڑتابلکہ یہ ٹرین چلتی رہتی ہے۔مسافر اُترتے رہتے ہیں اور دوسرے مسافر چڑھتے رہتے ہیں ۔آپ راستہ روکیں گے تو کھڑکیوں کے ذریعے مسافر داخل ہو جائیں گے۔بس اسی انداز سے تنظیمیں ، ادارے ،کاروباری انجمنیںاور سیاسی و معاشرتی ڈھانچے چلتے رہتے ہیں۔زندگی کی یہ پسنجر ٹرین انسان کو اس حقیقت کا احساس دلاتی ہے کہ کوئی بھی فرد یا شخص جزولاینفک نہیں ہے،یعنی کسی کے جانے سے کوئی خاص تباہی و بربادی نہیںآئے گی ادارہ اور تنظیمیں ٹوٹ نہیں جائیںگی،کاروبار تباہ نہیں ہو جائیں گے،نفع کم نہیں ہو جائے گا بلکہ یہ ٹرین اپنی منزل کی جانب رواںدواںرہے گی ‘‘۔۔۔۔)ص216)
واضح رہے مسلمانوں کے لئے اصل متاع گراں مایہ اور اساسی دستورِ عمل تو ْقرآن و سنت ہی ہے۔ تنظیمی دستور صرف اس جماعت کو ہی Cover کرتا ہے جس میں تنظیمی افراد کو ہی مکلف بنایا جا سکتاہے اور ضرورت پڑنے پر دستور شکنی کی پاداش میں اس کے خلاف تادیبی کاروائی کی جا سکتی ہے۔عام لوگ اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیںاور دستور میں حالات وواقعات کی مناسبت سے تحریک کے وسیع تر مفاد میںکوئی بھی ترمیم وتنسیخ صرف اجماعی طور کی جا سکتی ہے نہ کہ کسی کی ذاتی غرض پر۔
مشاورت:۔
عملی طور مشاورت کو تحریکی شعور میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔تحریک یا تنظیم کے تمام معاملات باہمی مشاورت سے ہی طے ہوتے ہیں۔تحریک سے و ابستہ افراد کے لئے مجلس مشاورت کا احترام کرنے کی از حد ضرورت ہوتی ہے۔پالیسی اور پروگرام کا سارا انحصارمشاورت کا متقاضی ہوتے ہیںاور جب مشاورت کوئی فیصلہ طے کر لے تو پھر توکل ہی اصل چیز ہوتی ہے، اگرچہ فیصلہ کسی کی ذاتی میلان کے خلاف ہی پڑتا ہو۔مشاورت سے پہلے ہر کسی تحریکی کارکن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے ،میلان اور اختلاف پوری وضاحت سے پیش کرے اور یہ بھی کوئی عیب نہیں کہ کارکن اپنے میلان کے مطابق مشاورت کا فیصلہ چاہے مگر جب مشاورت کسی حتمی نتیجے پر پہنچے جو ممکن ہے کسی کی چاہت کے مطابق ہو یہ نہ ہو، پھر کسی ایک فرد یا افراد کے گروہ کو اب فیصلہ کے خلاف اپنی انفردای بات منوانے کا حق حاصل نہیں رہتا ۔مشاورت دراصل تحریک کے متعلقہ وابستگان کے ووٹ سے ہی معرض وجود میں آ ئی ہوئی ہوتی ہے، اسلئے مشاورت کے کسی فیصلے پر اعتراض جتاناخود اپنی پسند پراعتراض جتانا ہوتا ہے۔ ایک بارفیصلہ صادر ہونے کے بعد اسلامی تحریک کا کوئی بھی اعلیٰ وادنیٰ سنجیدہ اور صالح فکر فرد مشاورتی فیصلے کے بارے میں یہ کہہ نہیں سکتا کہ میں اس کو نہیں مانتا۔تب یہ عمل تحریک اسلامی کے تئیں اس کی بے شعوری اور اپنی ذمہ داری کے حوالے سے ناآشائی کا عکاس مانا جائے گا۔ البتہ مجلس مشاورت قرآن و سنت میں کوئی دخل درمعقولات نہیں کر سکتی ،بس اجتہادی امور میں مستند علماء کی ر ہنمائی میں ،حالات و واقعات کی مناسبت سے اور افادہ ٔعامہ کی غرض سے کسی صحیح نتیجے پر پہنچ سکتی ہے تاکہ خوب سے خوب تر کی جستجو کام انجام دیاجاسکے۔ ایسی مشاورت پر اعتماد دراصل اجتماعیت پر اعتماد ہے جو تنظیم میں ڈسپلن کا سب سے بہترین اظہار ماناجاتا ہے۔ مختصراًمشاورت تحریکی شعور کی روح ہوتی ہے۔
امیر:۔
قرآن میں اللہ کافرمان ہے کہ اطاعت کرو اللہ کی اور رسول اللہﷺ کی اور ان کی جو آپ میں صاحب امر ہو۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تین آدمی سفر پر نکلیں تو اپنے میں سے وہ کسی ایک کو امیر بنا لیں۔(اُبوداؤد)۔اس حدیث کی تشریح میں سید محمود حسن صاحب ترجمان الحدیث میں لکھتے ہیں:’’دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے جدوجہد میں اجتماعی نظم اور امیر کا انتخاب تو عام سفر سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے افراد اپنی مرضی سے امیر کا انتخاب کریں‘‘۔مطلب جب اسلامی تحریک ہے ،دستور ہے ،مشاورت ہے تو امیر کا ہونا ناگزیر ہے۔امیر کی اطاعت معروف( شرعی طور نیک کام ) میں لازم ہے۔جس نے معروف میں اپنے امیر کی اطاعت کی اس نے گویا رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی اور جس نے معروف میں اپنے امیر کی نافرمانی کی اس نے گویا رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی۔ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے پانچ چیزوں کا حکم دیااور فرمایا کہ یہ حکم مجھے اللہ تعالی نے دیا ہے۔ان پانچ چیزوں میں دو چیزیں امیر کی بات سننا اور اطاعت کرنا ہے۔ایک اور روایت میں ہے :امیر کی اطاعت کرو چاہے وہ نکٹا غلام ہی کیوں نہ ہو۔یہ صحیح ہے کہ ہر سطح کے امیر یا قائد کا انتخاب کرتے وقت ہمیںمتوقع امیرکے تقویٰ، صائب رائے ،علم و عمل اور صلاحیت کو دیکھ بھال کر ہی اس کا انتخاب کرنا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ ہر سطح پر ایسے افراد کا ملنا بوجوہ ممکن نہ ہو پھر بھی جس کو بھی امیر بنایا جائے ،ہمارے لئے معروف میں اس کی اطاعت کرنا لازم ہو گا۔یہ ممکن ہے جو امیر ہو وہ مامورین سے کم پڑھا لکھا ہواور مامورین کے مقابلے میں اس کے پاس مختلف میدانوں میں کوئی تخصص یا اسپیشلا ئزیشن نہ ہو ،تب بھی مامورین کو سمع و اطاعت کا خون رگ رگ میں دوڑنا چاہیے۔ بسااوقات زیادہ تجربہ کار اور تعلیم یافتہ مامورین اپنے امیر کو نیک مشورہ وغیرہ دے سکتے ہیںاور دینا بھی چاہیے لیکن مامور یت کے درجہ پر استادہ ہوکر ہی ۔ اس کا مطلب یہ کبھی نہ ہوتا کہ نظم میں اختلاف ِ رائے نہ ہو، معقول اختلاف کو رحمت بتا یا گیا ہے ۔ مامور کا حق بنتاہے کہ وہ امیر کو معقول دلائل سے اپنی بات کاقائل کرنے کی کوشش کریں مگر اس پر اپنا عندیہ کسی حال میںنہ ٹھونس دے۔ نیک جذبے کے تحت اختلافی معاملہ پر گفتگو ہو تو مبارک مگر ضد پر اڑے رہنا کوئی مناسب طریق کار نہیں ۔ سلیقۃ الاختلاف اسلام میں ایک ٹھوس علم ہے جس کا امت کے وسیع تر مفاد میں بھر پور استعمال کیا جانا چاہیے ۔تحریکی شعور میں جتنا علمی اور فکری شعور کا عمل دخل ہے اتنا ہی دستور ،مشاورت اور امیر کی اطاعت کی واضح اہمیت ہے۔اللہ تعالی امت مسلمہ کو صحیح تحریکی شعور عطا کر کے اسلام کے ساتھ وفاداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
######