مذہب اسلام میں ایک ہی وقت میں چار سے زائد بیویاں رکھنا نا جائز و حرام ہے۔فقہائے عظام اور تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ وقت واحد میں مرد چار بیویاں رکھ سکتا ہے۔ مسلمانوں کو یہ کلیہ سمجھنا ہوگا کہ یک زوجگی عام اصول ہے، اور کثیر زوجگی استثنائی صورت حال کا حکم یا رعایت ہے۔اس کی اجازت مشروط ہے،اور اس کا حکم ضرورت کے لحاظ سے ہے۔ اس مختصر سے مضمون میں تعدد ازدواج کے سلسلہ میں ایسی حکمتیں اور حقائق رقم کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ بعض ناقدین کے شبہات از خود رفع ہوجائیں۔ سب سے پہلے یہ بات ذہن نشیں کی جانی چاہیے کہ تعدد ازواج کے لیے کچھ شرائط ہیں۔
پہلی شرط : ’’عدل ہے ‘‘ ۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے:’’ اگر تمہیں خدشہ کہ تم عورتوں کے درمیان برابری نہیں کر سکتے تو پھر تمہارے لئے ایک ہی (بیوی ) کافی ہے ‘‘ ( النساء آیت ،نمبر: 3 ) اور تعدد کے جواز کے لئے جو عدل اور برابری مطلوب ہے ،وہ یہ ہے کہ اپنی بیویوں کے مابین نفقہ، لباس، رات بسر کرنے وغیرہم وہ مادی امور جن پر شوہر کی قدرت و استطاعت ہو۔ ان میں عدل اور برابری مراد ہے۔ ہاں ،محبت یا میلان میں کے بارے میں وہ مکلف نہیں ہے کیوں کو یہ ایک فطری امر ہے۔اللہ عز وجل ارشاد فرماتا ہے: ’’ اور تم عورتوں کے مابین عدل نہیں کر سکتے اگرچہ تم اس کی کوشش بھی کروں ‘‘ (النساء آیت نمبر: 129)
دوسری شرط : ’’بیویوں پر نان نفقہ کی قدرت ہے ‘‘ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ’’اور ان لوگوں کو پاکدامن رہنا چاہیے جو اپنا نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ،یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے‘‘( النور، آیت نمر: 35 ) یعنی جن کے پاس نکاح کرنے کے لیے مہر کی رقم نہ ہو اور نہ ہی ان کے پاس اتنی قدرت ہو کہ وہ شادی کے بعد اپنی بیوی پر خرچ برداشت کرسکتا ہے، تو انہیں تعدد ِازدواج کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ اجازت بقدرِ استطاعت ہے۔اگر ایک بیوی پر بھی خرچ برداشت نہیں کرسکتا تو نکا حِ واحدہ کی بھی اجازت نہیں ہے۔
تعدد نکاح کی اباحت میں درج ذیل مضمر حکمتوں سے بھی ہمیں روشناس ہونا چاہیے۔ (۱) تعدد نکاح یعنی این سے چار تک شادیاں اس لیے مباح ہیں تاکہ امت مسلمہ کی کثرت ہو اور یہ معلوم ہی ہے کہ کثرتافراد تعددِ نکاح کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ایک بیوی کی بہ نسبت اگر زیادہ بیویاں ہوں تو پھر کثرت میں بھی آسانی اور زیادتی ہوگی اور عقل مندوں کے یہاں یہ بات معروف ہے کہ افراد کی کثرت اُمت کے لئے تقویت کی باعث ہے۔ کم از کم کسی ملک میں اقلیت میں رہنے والے قومیں تو اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔ پھر افرادی قوت کی زیادتی سے کام کرنے کی رفتار بھی بڑھے گی جس سے اقتصادیات بھی مضبوط ہوں گی۔ (۲) سروے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اس طرح اگر ہر مرد ایک ہی عورت سے شادی کرے تو اس کا معنی یہ ہوا کہ کتنی ہی عورتیں شادی کے بغیر رہ جائیں گی جو کہ معاشرہ اور بذات خود عورتوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔اس نقصان کی مختصر تفصیل یہ ہے: اگر یک زوجگی کے اصول کو سختی کے ساتھ نافذ کردیا جائے تو بہت سی عورتیں شادی کے بغیر رہ جانے کی وجہ سے اولاد سے محروم ہوں گی ،پھر سیدھے راستے سے منحرف ہو نے کا اندیشہ ہوگا۔اس سے معاشرے میں اچھے شوہروں کا فقدان ہو گا ، زنا اور فحاشی عام ہوگی اور نتیجہ زنا کاری سے متعدد لاعلاج بیماریاں پیدا ہوگی جس کے سبب سے سماج غیر صحت مند بن کر رہ جائے گا۔ (۳) مرد حضرات ہر وقت خطرات سے کھیلتے رہتے ہیں جو کہ ہو سکتا ہے کہ ان کی زندگی ہی ختم کردیں، اس لیے کہ وہ بہت زیادہ مشقت و محنت کے کام کرتے ہیں۔کہیں تو وہ لڑائیوں میں فوجی اہلکارہوتے ہیں،نیز مردوں میں وفات کا احتمال عورتوں سے زیادہ ہوتا ہے اور یہ چیز عورتوں میں بلا شادی رہنے کی شرح زیادہ کرنے کا باعث اور سبب ہوتاہے ۔اس کا صرف ایک ہی علاج ہے مردوں کی کثیر زوجگی یعنی ایک سے زائد شادیاں کرنا۔(۴) مردوں میں کچھ مرد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی شہوت قوی ہوتی ہے اور انہیں ایک عورت کافی نہیں رہتی ۔اگر ایک سے زائد شادی کرنے کا دروازہ بند کر دیا جائے اور مردسے کہا جائے کہ آپ کو صرف ایک شادی کی اجازت ہے تو وہ بہت زیادہ مشقت میں پڑجائے گا اور بہت ممکن ہے کہ وہ اپنی شہوت کسی حرام طریقے سے پوری کرنے لگے۔ اس میں یہ اضافہ بھی کرتے چلیں کہ عورتوں کو ہر ماہ حیض بھی آتا ہے او رجب بچے کی ولادت ہوتی ہے تو پھر 40 دنوں تک وہ نفاس کی حالت میں رہتی ہے جس کی بنا پر مرد اپنی عورت سے ہم بستری نہیں کرسکتا کیونکہ شریعت اسلامیہ میں حیض کی حالت میں جماع کرنا حرام ہے اور اس کا طبی طور پر بھی نقصان ثابت ہے۔ اسی وجہ سے جسے عدل کرنے کی قدرت ہو، اُس کے لیے تعدد کو شرائط کیق ید کے ساتھ مباح کر دیا گیا ہے۔ (۵) اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ایک بیوی بانجھ ہو یا پھر وہ خاوند کی ضرورت پوری نہ کرسکے یا اس کی کسی بیماری کی وجہ سے خاوند اس سے مباشرت نہ کرسکے اور خاوند کوئی ایسا ذریعہ تلاش کر رہا ہو جو مشروع ہو اور اپنی ازدواجی زندگی میں اپنی خواہش پوری کرنا چاہتا ہو جو اس کے لیے مباح ہو تو اُس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ دوسری شادی کرے۔(۶) یہ بھی ممکن ہے کہ عورت ایک آدمی کے قریبی رشتہ داروں میں ہو جس کا کوئی اعانت کرنے والا نہ ہواور وہ شادی شدہ بھی نہیں ، یا بیوہ ہواور یہ شخص اس کے او پر احسان کرنے کی سوچ رہاہو تو ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ سب سے بڑا احسان یہی ہوگا کہ وہ اسے اپنی بیوی بنا کر اپنے ساتھ ،اپنی پہلی بیوی کے ساتھ گھر میں رکھے تاکہ اس کے لئے عفت و انفاق دونوں جمع کردے جو کہ اسے اکیلا چھوڑنے اور اس پر خرچ کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ ان پیش کردہ حقائق سے کوئی صاحب عقل سلیم اور منصف مزاج شخص اختلاف نہیں کر سکتا۔اسی طرح کچھ اور مشروع مصلحتیں بھی ہیں جو تعددِازدواج کو جوازیت دیتی ہیں۔ مذکورہ حکمتوں پر مطلع اور باخبر ہونے کے بعد کوئی بھی منصف مزاج شخص ایک سے چار تک نکاح کر نے کی مخالفت نہیں کرسکتا۔یہ تعدد صرف اسلام ہی میں مباح نہیں ہے بلکہ پہلی اُمتوں میں بھی یہ معروف تھا۔بعض انبیاء کرام ؑکئی کئی شریک حیات تھیں۔حضرت سلیمان علیہ السلام کی نوے بیویاں تھیں، حضرت یعقوب علی السلام کی بھی کئی ازواج تھیں، عہد نبویؐ میں کئی مردوں نے اسلام قبول کیا تو ان میں بعض کے پاس آٹھ بیویاں تھیں اور بعض کے پاس پانچ پانچ نبی، صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ چار کو رکھو اور باقی کو طلاق دے دو۔
آج مشرق ومغرب ہر جگہ ملکی قوانین اور معاشرتی نظام کو جُل دے کر ایک سے زائد بیویاں یا جنسی پارٹنرز رکھنے کا چلن ہے۔ کچھ ممالک میں اس کو قانونی اجازت ہے اور کچھ ممالک میں قانونی اجازت نہ ہونے کے باوجود لوگ چوری چھپے یہ طرز عمل اختیار کرتے ہیںجب کہ چند ایک ممالک میں شادیاں کم اور محض جنسی پارٹنرشپ( لیو ان ریلیشن) کا شیطانی رواج عام ہے۔ یہاں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تعدد ِازدواج اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد شادیوں کے بارے میں ایک خاتون معاصر مغربی مصنف کیرن آرام اسٹرانگ کی ، سیرت نبیؐ پر ایک بہترین کتاب’’ محمدؐ ہمارے زمانہ کے لیے ‘‘ کا ایک اقتباس نقل کر دیا جائے۔ محترمہ لکھتی ہیں: ’’ تعدد ازدواج کا حکم، سماجی قانون کا ایک حصہ ہے ،جس کا مقصد جنسی خواہشات کو بڑھانا نہیں تھا، بلکہ سماج میں ہو رہی ان ناانصافیوں اور مظالم کی اصلاح تھی جنہیں مطلقہ و دیگر عورتوں کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کچھ سرکش لوگ خاندان کے کمزور لوگوں سے سب کچھ چھین لیتے تھے اور ان کے پاس کچھ نہ بچتا تھا۔تعدد ازدواج کوا س لئے بھی جواز ملا تاکہ پریشان حال عورتوں کی عزت کے ساتھ شادی کو یقینی بنایا جاسکے ،پرانے نقصانات کی تلافی ہواور غیر ذمہ دارانہ تعلقاتِ زن وشو کا خاتمہ کیا جاسکے۔ دراصل عورتوں کو قرآن وہ قانونی حیثیت وعظمت دینا چاہتا ہے جو اکثر مغربی عورتوں کو آج تک نہیں مل پائی ہے‘‘۔ مذکورہ اقتباس اسلام میں تعدد ازدواج کے قانون کی اہمیت کو اُجاگر کرنے اور جدید ذہن کے شبہات کے ازالے کے لیے کافی ہے۔ اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور مذہب اسلام کو صحیح طریقہ سے سمجھنے کی طوفیق عطا فرمائے۔
رابطہ : اسلامک ریسرچ اسکالر،
البرکات، علی گڑھ۔