یو این آئی
تل ابیب//اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے غزہ کی پٹی کے کچھ حصوں میں فلسطینیوں پر فائرنگ کرکے حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے ۔ایک تحریری بیان میں، اسرائیلی فوج نے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی کے مختلف حصوں میں “مشتبہ افراد کو ہٹانے کے دعوے کے ساتھ گولی چلائی گئی جو فوجی دستوں کے لیے خطرہ تھے اور ان کے قریب پہنچ گئے تھے ۔”بیان میں، جس میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے “جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کی جائے گی” میں اس طرف بھی اشارہ دیا گیا ہے کہ ہم غزہ کے ہر منظر نامے کے لیے تیار ہیں۔7 اکتوبر 2023 کو غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملوں میں 47,518 فلسطینی جن میں 17,841 بچے اور 12,298 خواتین شامل تھیں، ہلاک اور 111,612 افراد زخمی ہوئے ۔ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی جاری رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اوول آفس میں دستخط کی تقریب کے بعد پریس کے اراکین کے سوالات کے جوابات دیے ۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا غزہ میں جنگ بندی جاری رہے گی، ٹرمپ نے کہا: “میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ جاری رہے گی۔ کیونکہ ہمارے پاس کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ یہ معاہدہ جاری رہے گا۔”اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے آج وائٹ ہاوس میں ملاقات کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے ٹرمپ نے بتایا کہ وہ خطے کی صورتحال سے متعلق تمام امور پر تبادلہ خیال کریں گے ۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل سے ضم کر لیا جائے گا، ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس معاملے پر بات نہیں کرنا چاہتے لیکن انہوں نے کہا کہ “مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے پاس بہت کم زمین ہے ۔”اس دوران حماس کے پولیٹیکل بیورو کے ایک ذریعے نے گزشتہ روز کہا کہ تحریک جنگ بندی کے دوسرے مرحلے اور ممکنہ قیدیوں کے تبادلے کے لیے اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار ہے ۔فلسطینی تحریک مزاحمت حماس کے دو مختلف رہنماؤں نے پیر کے روز اس امر کا اظہار کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی گروپ جنگ بندی معاہدے کے طے شدہ نکات کے مطابق جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات کرنے کو تیار ہے ۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے ساتھ حماس کے دو مختلف رہنماؤں نے الگ الگ اس موضوع پر بات کی ہے ۔خیال رہے جنگ بندی معاہدے کے تحت یہ طے کیا گیا تھا کہ جنگ بندی کے 16 دن بعد اگلے مرحلے کے لیے فریقین اپنے ثالثوں کے توسط سے دوبارہ ملیں گے اور جنگ بندی کے اگلے مرحلے کے لیے طریقہ کار طے کریں گے ۔معاہدے کی اس شق کے تحت پیر کے روز 3 فروری سے یہ مذاکرات ہونا تھے ۔ تاہم اسرائیل نے ان مذاکرات کے لیے اپنے وفد کو جانے سے روک دیا ہے ۔حماس کے رہنما نے ‘اے ایف پی’ سے گفتگو کرتے ہوئے اپنا نام خبر کا حصہ بنانے سے منع کیا اور کہا کہ معاملہ کافی حساس نوعیت کا ہے ۔ اس لیے وہ اپنا نام دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ البتہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جنگ بندی معاہدہ کرانے والے ثالث ملک اسرائیل کو جنگ بندی میں رکاوٹ پیدا کرنے سے روکیں گے ۔حماس کے دوسرے رہنما نے کہا ‘ ہم انتظار کر رہے ہیں کہ ہمیں ثالث ملکوں کی طرف سے مذاکرات کے لیے جمع ہونے کی دعوت دی جائے اور ہمارا نمائندہ وفد اس میں شرکت کے لیے جائے۔