موجودہ جدید دور میں مادی سہولتوں، آسانیوں اور مشینوں کے عوض جہاں انسانی وجود سے وابستہ رشتوں اور محبتوں کا خاتمہ ہورہا ہے ،وہیںازدواجی زندگی میں انتشار و اضطراب پیدا کرکے خاندانی نظام کو بھی تباہ و برباد کررہا ہے۔بے شک خاندان مرد اور عورت کے نکاح کے ذریعے وجود میں آتا ہے، جسے شوہراور بیوی کا نام دیا گیا۔ زوجین کے درمیان محبت و شفقت،احترام و ہمدردی سے ہی یہ رشتہ قائم رہتا ہے۔ اسلام نے زوجین کی سرگرمیوں کے دائرے متعین کر دئیے ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک کا مخصوص کردار اور دائرۂ کار ہے، جس میں رہ کر اُنہیں کام کرنا ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کے متعلق ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اپنے بچوں کی ذمہ دار ہے۔ لیکن یہ ذمہ داریاں زوجین تبھی نبھاسکیں گے، جب زوجین کے درمیان محبت و الفت کی فضا قائم ودائم رہے اور ان کی ازدواجی زندگی خوش گوار رہے۔ اس سلسلے میں اسلام نے واضح تعلیمات دی ہیں کہ شوہر کو بیوی کے ساتھ کیسا معاملہ کرنا ہے اور بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے۔حق تو یہی ہے کہ خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے میاں اور بیوی کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ظاہر ہے کہ بیوی ، شوہر کی خواہش و مرضی کے مطابق ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی ،اس لئے شوہر کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ اس کی فطرت،عادت اور مزاج میں سے ہے، اس لئے وہ اس پر اپنی مرضی جبراً نہ ٹھونسے، بلکہ اس کے نسوانی مزاج کا خیال رکھتے ہوئے اس کی لغزشوں، کوتاہیوں اور غلطیوں سے درگزراور چشم پوشی سے کام لے۔اُ س کے کام میںہاتھ بٹائے اور نرم یا میٹھی باتوں سے اس کی دلجوئی کرے اور عقلمندی کے ساتھ اُس کے نقص یا خامی کو احسن طریقے سے دور کرے ، تاکہ اسے احساس ہو کہ جس کے ساتھ وہ زندگی بسر کر رہی ہے ،وہ اس کے معاملات پر توجہ بھی دیتا ہے۔ ازدواجی زندگی میں ایک دوسرے پر اعتماد کرنا بہت ضروری ہے۔ ضرورت سے زیادہ حساس اور شکی مزاج ہونے سے آپس میں نااتفاقی اور لڑائی ہوتی ہے اور فاصلے بڑھ جاتے ہیں جس سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔اختلافات ازدواجی زندگی کا حصہ ہیں، جنہیں دور کرنے کے لئے افہام و تفہیم سے کام لیا جائے۔ہمارے معاشرے میں ازدواجی زندگی میں نازک اور حساس مسئلہ ساس اور بہو کا ہوتا ہےجبکہ باشعور شوہرجواسلامی تعلیمات سے واقف ہو، وہ بیک وقت دونوں کو خوش و خرم رکھ سکتا ہے، نہ وہ ماں کا نافرمان ہوتا ہے اور نہ ہی بیوی کے حقوق کا غاصب ہوجاتا ہے۔ اسلام نے ماں اور بیوی دونوں کے ساتھ انصاف کیا ہے اور دونوں کو ان کا صحیح مقام دیا ہے۔ بشرطیکہ انسان اس پر عمل کرے اور اس سلسلے میں ماں اور بیوی دونوں اس میں اُس کا ساتھ دیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں مختلف ذرائع ابلاغ نے ازدواجی زندگی کی تباہی و بربادی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ سیریل، ڈراموں اور فلموں میں دکھائی جانے والی عیش و عشرت کی زندگی حقیقی زندگی سے بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔ نوجوان طبقہ فلمی دنیا سے متاثر ہو کر ایک تصوراتی دنیاقائم کر لیتا ہے، لیکن جب وہ شادی کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ زندگی تو اتنی حسین نہیں ہے جتنی فلموں میں دکھائی گئی تھی، وہ ڈپریشن، مایوسی، ذہنی دباؤ اور انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں، رہی سہی کسر فیس بک، واٹس اَپ، سوشل میڈیااور انٹرنیٹ کی دنیاپوری کر دیتی ہے،جس سے ازدواجی زندگی تلخ ہوجاتی ہے۔اسلام نے جہاں شوہر سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، وہیں بیوی کو بھی حکم دیا کہ وہ عدل و انصاف اور جائز حدود میں رہتے ہوئے اپنے شوہر کی اطاعت کرے۔مگر بدقسمتی سے موجودہ دور میں زوجین نے ان اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور چلے گئے ہیں،جس کے نتیجے میں اُن کی زندگی میں انتشار و اضطراب غالب ہوچکاہے۔ اگراب بھی زوجین اسلامی تعلیمات پر عمل کریں اورمتعین شدہ اپنے اپنے دائروں میں رہیں تو اُن کی ازدواجی زندگی بہت خوش گوار ہو جائے گی اور گھروں میں لڑائی جھگڑوں کی جگہ امن و سکون اور خوش حالی کی فضا چھائی رہے گی۔ دنیا کے دُکھوں اور صدموں سےچھٹکارا ملے گا اور زندگی کامیابی کی راہ پر گامزن ہوجائے گی۔
ازدواجی زندگی میں اضطراب و انتشار کیوں؟
