اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں اور بیاں ہے کہ اردو زبان ہندوستان کی تہذیبی، تاریخی اور لسانی اعتبار سے ایک دریا کی مانند ہے جس کی تیز رفتاری میں کبھی کوئی فرق واقع نہ ہوا اور نہ مستقبل میں ہونے کا امکان ہے۔ یہ دریا گزشتہ کئی صدیوں سے ہندوستان بھر بلکہ برصغیر اور دیگر یورپی ممالک کو سر سبز و شاداب کر رہا ہے۔اگر چہ وقتاً فوقتاً اس دریا میںچھوٹے بڑے سیلاب اور طوفان آتے رہے لیکن اس دریا کے بہاؤاور تیز رفتاری میں کبھی کوئی فرق رونما نہ ہوا۔گوہم یہ بات اعلاناً کہہ سکتے ہیں کہ وقت کا کوئی سیلاب اور زمانے کا کوئی طوفان اس زبان کی پیر نہ اُکھاڑ سکی۔ یہ شانداروجاندار زبان آج تک نہ صرف زندہ ہے بلکہ پہلے سے زیادہ آب وتاب کے ساتھ اپنا سفر جاری وساری رکھی ہوئی ہے۔ اس زبان میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب منعکس ہے۔ اردو زبان کے ادبی سرمایے کے مطالعے کے بغیر ہندوستان کی کئی صدیوں کی سماجی ، سیاسی ، تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے پیچ وخم سے واقف ہونا ممکن نہیںہے۔
اردو زبان کی ابتدا ہندوستان کی لسانی تاریخ میں اس وقت ہوئی جب مسلمان ۱۱۹۲ء کو دہلی میں داخل ہوئے۔ یہاں پر یہ بات ذہن نشین کرانی لازمی محسوس کر رہا ہوں کہ اردو زبان خالص مسلمانو ںکی زبان نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ڈاکٹر مسعود حسین خان نے بھی اپنی تصنیف ’مقدمہ تاریخ زبان اردو‘ میں یہ بات واضح کر دی ہے کہ اردو زبان کا آغاز دوسری ہندوستانی زبانوں کی طرح جدید ہند آریائی دور یعنی۰۰ ۰اء کے بعد ہوا۔ نیز اردو زبان کا تعلق انھوں نے ہند یورپی خاندان سے منسوب کیا ہے۔اس سے یہ بات کسی حد تک ثابت ہوتی ہے کہ اردو کومسلمانوں کی زبان کہنا غلط ہے۔ کسی بھی زبان کا تعلق کسی مذہب ،قوم یا علاقے سے نہیں ہوتاہے بلکہ اسے تشکیل دینے میں بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ البتہ یہ بات مسلمہ ہے کہ مسلمانوں نے اس زبان کو کچھ زیادہ ہی اپنایا ہے اور اسی زبان میں اپنی بیشتر تخلیقات پیش کی ہیں۔ اس کے علاوہ اس زبان پر چونکہ عربی اور فارسی کا رنگ زیادہ غالب ہے اور مسلمانوں کی بیشتر تعلیمات ان ہی زبانوں میں تھیں ،لہٰذا مسلمانوں نے ہندوستان میں رہ کر نیا وجود پانے والی اس زبان (اردو زبان) کو کچھ زیادہ ہی سنجیدگی اور ہر دلعزیزی سے اپنایا۔
اردو زبان ایک مخلوط زبان ہے جس میں مختلف زبانوں کے الفاظ شیرو شکر ہوئے ہیں ،خاص کر عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی کے۔ مختلف زبانوں اور مختلف ا لفاظ کے لشکر کی وجہ ہی سے اس زبان کا نام ’اردو‘ پڑا ہے۔ حالانکہ اپنی ارتقائی منزل میں اس زبان نے بہت سے روپ اختیار کیے تھے۔ کبھی یہ ہندی، کبھی ہندوی اور کبھی ہندوستانی کہلائی۔ کبھی گجری،کبھی دکنی ،کبھی برج بھاشا تو کبھی ریختہ اور بالآخر اردو کہلائی۔ مختلف زبانوں کے باہمی میل جول سے ارتقاء پذیر ہونے والی اردو زبان نے ابتدا ہی سے سیکولر کردار اپنایا ہے۔ اس نے مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنے دامن میں اس طرح جذب کیا ہے کہ آج ان کے اصل ماخذ کی شناخت بھی آسان نہیں۔پروفیسرشمیم حنفی اردو زبان کے متعلق فرماتے ہیں’ اردو میں خالص ہندوستانی عناصر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیںاور یہ زبان پوری دنیا کا سفر کرتی رہی ہے۔ اردو کا مزاج خالص ہندوستانی ہے۔‘
ہندوستان میںہندو اور مسلمانوں کے باہمی میل جول سے جو گنگا جمنا تہذیب کی آبیاری ہوئی اس کے نقوش، فکر وفلسفہ، علوم وفنون، سیاست و مذہب اور معاشرتی زندگی کی رنگارنگیوں میں تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ اس زبان نے تاریخ کے ہر موڈ پر اپنے عہد کے اجتماعی احساسات وجذبات اور عصری صداقتوں کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ اس زبان نے اپنے سیکولر کردار سے ملک کے مختلف فرقوں کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور جذبۂ خیر سگالی کوفروغ دیا۔ ملک ہندوستان کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہاں لسانی ، ثقافتی اور تہذیبی کثرت کے باوجود ایک خوشنما وحدت(Unity in Diversity) ہے ۔ یہی وہ چیز ہے جو عالمی پیمانے پر ہندوستان کو دیگر ممالک سے منفرد و ممتاز کرتی ہے۔ ہندوستان کی اس وحدت کے پیچھے اردو زبان ہی کا اہم رول ہے۔یہی وہ زبان ہے جس نے پورے ملک کی علاقائی زبانوں کو اپنے اندر پیوست کر لیاہے۔اور یہی وہ زبان تھی جس کے آئینے میں پہلی بار جمہوریت کی تصویر دیکھی گئی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انگریز حکمران حکومت کے نظم و نسق کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کی غرض سے اردو زبان سے واقفیت لازمی تصور کرتے تھے جس کی مثال فورٹ ولیم کالج ہے۔ چونکہ ان کو یہ پتاتھا کہ اردو ہندوستان کی واحد زبان ہے جسے تقریباً اس ملک کی اکثریت بولتی اور سمجھتی ہے۔ خاص طور سے اس زمانے میں اردو ہندوستان کی باہمی طور سمجھی اور بولنے والی زبان لنگوافرنکا (Lingua Franka) کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج میں خالص اردو زبان پر زور دیا گیا ۔ رفتہ رفتہ اردو زبان اتنی پروان چڑھی کہ جدید ہندی کے سب سے بڑے مبلغ بھار تیندو ہریش چندر خود اردو میں شاعری کرنے لگے اور رساؔ تخلص اختیار کیا۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں بھارتیندو کے خیالات میں تبدیلی رونما ہوئی اور یہاں تک ہوئی کہ انیسویں صدی کے اوآخر میں انھوں نے نہ صرف اردو چھوڑدی بلکہ اس زبان کے خلاف نہایت رکیک طنزیہ تحریریں بھی لکھیں۔ خیر اگر بھارتیندوہریش چندر اردو کے خلاف کسی وجہ سے ہوئے تو وہ حمایت ہندی کی وجہ سے ہوئے مگر بے سود۔ کیونکہ اب اردو داں طبقہ کافی ترقی کر چکا تھا۔ اس میں بڑے بڑے دانشور ،ادیب اور شعراء اپنی فنکاری کا نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ مظاہرہ کر رہے تھے۔ خاص طور سے اس زمانے میں غالبؔ،ذوقؔ، مومنؔ وغیرہ جیسی ہستیاں ستاروں کی طرح آسمان پر چھا گئے تھے اور اپنی شاعری کی روشنی سے پورے اردو ادب کو روشنی بکھیر رہے تھے۔
آج جب ہم اردو زبان وادب کا جائزہ لیتے ہیں تو اردو زبان نے اتنے بڑے دانشور،ادیب، شاعر، نقاد پیدا کیے ہیںجن کا نام دنیائی ادب میں بڑے ہی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ خاص کرمرزا غالبؔ، میر تقی تقیؔ، ڈاکٹر اقبالؔ، فراقؔ، مومن، زوقؔ، میرانیسؔ، سرسیداحمد خان، مولوی عبدالحق، حالیؔ، شبلیؔ، محمد حسین آزاد، قراۃالعین حیدر، سعادت حسن منٹو، پریم چند، انتظار حسین وغیرہ وغیرہ۔ ان اردو نواز دانشوروں نے نہ صرف اپنی قوم بلکہ پورے برصغیر کو ترقی اور خیر سگالی کی طرف گامزن کیا۔ آج پوری دنیا میں اردو زبان کے ان دانشوروں کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ ان کی تقلید بھی کی جارہی ہے۔ اب دنیا نے اردو زبان کے ان ادیبوں اور دانشورں کی تھیوریوں کو سمجھنا سیکھا ہے اور ان کے سہارے آگے بڑنا سیکھا ہے۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی اردوزبان اب بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ فلم انڈسٹری کو بھی اردو زبان کی بنا پر اس وقت ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے۔گویا اردو زبان ہماری روز مرہ کی زندگی سے الگ نہیں ہو سکتی۔ ہر دکھ سکھ میں اس زبان کے سہارے ہمیں سکون میسر ہواہے۔ پھرچاہے وہ موسیقی کے ذریعے ہو یا شاعری کے، چاہے داستانوں اور ناولوں کے ذریعے ہو یا ڈراموں کے ذریعے یا پھر لطیفوں کے ذریعہ ملا ہو۔ گو یازندگی کے ہر پہلو سے وابستہ علم اردو زبان میں میسّر ہے۔ نامور ادیب ، شاعر ومحقق اور ناقد ڈاکٹر عابد سید تقی اردو کی ترقی اور اہمیت و افادیت کے بارے میں کہتے ہیں’اردو آج پوری دنیا میں بکھری ہوئی ہے۔ وہ ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں’جس زبان میں ادب عالیہ کا خزانہ ہوگا وہ زبان زندہ رہے گی اور اردو میں ادب عالیہ بھرا ہوا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ’ ’اردو حُسن یوسف ؑہے، کب تک اسے کنعان کے کنویں میں بند رکھیں گے‘‘۔یہ ایک تند وتلخ حقیقت ہے کہ مٹھی بھر لوگ اس زبان سے بہت ہی بڑا کھلواڑ کر رہے ہیں۔ نوجوان نسل کو یہ کہہ کر اردو تعلیم سے دور رکھا جانے لگا ہے کہ یہ ایک مذہبی زبان ہے۔ یہ وہ لوگ کہہ اور مان رہے ہیں جو تاریخ سے بالکل غافل ہیں ۔میں یہ بات بھی ذہن نشین کرانا چاہوں گا کہ اردو زبان واحد ایسی زبان ہے جس نے ہندوستان کے لوگوں کو آپس میں ملانے اور ایک ہونے میں بہت بڑا رول انجام دیا ہے۔ ہندوستان کی آزادی میں تو اردو زبان ہی کا وہ جذبہ شامل تھا جس نے ہر فرد کو اجاگر کیالیکن بدقسمتی سے اب اسی زبان کے بولنے والوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے جس سے کسی حد تک اس زبان کا چلن دن بہ دن کچھ کم ہو رہا ہے۔اس کے علاوہ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اردو داں طبقہ احساس کمتری کا شکار ہو گیا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے۔ اردو کے نام پر کھانے اور پینے والوں کو چاہیے کہ وہ خود میں پنہاں خامیوں اور کمزوریوں کو اولیّن فرصت میں دور کرنے کی کامیاب کوشش کریںاور یہ بات ذہن نشین کریں کہ اردو برصغیر کی ایک واضح شناخت اور ساتھ ہی ہماری پہچان بھی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے زمینی سطح پر ایسے لوگوں کو تواریخ سے آگاہ کرائیں جو اردو کو ایک خاص مذہب یاقوم کی زبان قرار دے کر اس کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔ ہمیں نئی نسل کو اس زبان سے جوڑنے کے لیے اردوکونسل اور حکومت کو اپنا بھر پور تعاون دینا ہے۔ ہمیں اس زبان کو عالمی سطح پر وہ مقام دلانا ہوگا جس کی یہ حقدار ہے۔ اب جب ہم ہی احساس کمتری کا شکار ہو جائیں تو پھرکیسے ہم افہام و تفہیم اور یگجہتی کی اس زبان کو آج کے اس مقابلاتی دور میں زندہ رکھ پائیں گے۔ ہمیں اس زبان کی ترقی و ترویج کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اردو کے فروغ کی کوششوں سے قبل ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں روز مرہ کے کام کاج میں زیادہ سے زیادہ اردو زبان کو استعمال کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی، ساتھ ہی اردو کو علاقائی زبانوں کے ساتھ بھی لین دین کا عمل جاری رکھنا ہوگا۔ نئی نسل کو اردو سکھانے پڑھانے کے لیے موجودہ ٹکنالوجی سے مزین طریقے اپنانے ہوں گے، اردو کی سماجی و ثقافتی شناخت پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ اپنے مشاہدات کو اکیسویں صدی کے اُفق پر لاکر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سہ لسانی فارمولے یا دوستور ہند کے آٹھویں شڈول میں ہونے کے باوجود ہم نے اس زبان کی ترقی و سا لمیت کے لیے مزید کوشاں رہنا ہوگا تاکہ آنے والے دور میں اس زبان کا معیار اس قدر بلند ہو کہ ہم بلند بانگ یہ دعویٰ کر سکیںجو بہت پہلے ہمارے داغؔ صاحب کر چکے ہیں ؎
اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اگر ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ زبان کو مرنے نہیں دیں گے تو اردو کی ترقی کی صورت خود بہ خود بنتی چلی جائے گی۔