جموں وکشمیر میں اس وقت جو غیر مسلم شعرا ء اور ادبا اردو زبان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناچکے ہیں ان میں عرش صہبائی،ٹی آر رانا،پرتپال سنگھ بیتاب،بے تاب جے پوری،آنند سروپ انجم،یوگیندر پال طائر،بلراج کمار بخشی،راجکمار چندن،موہن سنگھ الفت،عشاق کشتواڑی،کے ڈی مینی،پیارے ہتاش،ودیا رتن آسی،آنند لہر،شام طالب،پریمی رومانی،مہاراج کرشن،اوتار کرشن گنجو،اوم پرکاش شاکر،دیپک آرسی،جسونت منہاس،ڈاکٹر سکھ چین سنگھ، ڈاکٹر وجے دیو سنگھ، ڈاکٹر دلجیت ورما،ڈاکٹر کرن سنگھ،یش پال شرما،ڈاکٹر مول راج اور سوتنتر دیو کوتوال کے علاوہ کچھ اور بھی ناموں کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ان تمام غیر مسلم شاعروں اور ادیبوں کے نام یہاں اس لیے درج کیے گئے تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ اردو ایک ایسی شیریں اور دلکش زبان ہے جوہر کسی کو اپنا گرویدہ بنالیتی ہے۔یہ تجربے اور مشاہدے کی بات ہے کہ ایک صحیح اردو بولنے والا شخص جب کسی غیر اردو داں مجلس میں جاتا ہے تو اسے قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ اردو تہذیب ومزاج کا حامل ہو۔آج بھی غیر اردو داں طبقہ میر تقی میر،غالب،اقبال،بہاد ر شاہ ظفر،فراق گورکھپوری،فیض احمد فیض،مخدوم،جوش،حسرت موہانی اور جدید شعرا میں بشیر بدر،احمد فراز، ندافاضلی وغیرہم شعرا کی غزلیں اور شعر سننے کی فرمائش کرتے ہیں۔گویا معلوم یہ ہوا کہ اردو میں جو فطری کشش،مٹھاس اور جادو ہے وہ سب کے سرچڑ ھ کر بولتا ہے۔
اردو کے فروغ اور اسے مقبول عام بنانے اور اس کے ذریعے فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے میں فلمی دنیا کا اہم رول رہا ہے۔ہندوستان میں بنی اردو کی کلاسیکی فلموں میںجن اردو شاعروں نے سدا بہار گیت لکھے ان میں ساحر لدھیانوی ،شکیل بدایونی،حسرت جے پوری،مدن موہن،شنکر جے کشن،کمال امروہوی،سمیر،شیلندر،کیفی عظمی،مجروح سلطان پوری،گلزار اور جاوید اختر ایسے گیت کار ہیں جن کے گیتوں کو محمد رفیع،شمشاد بیگم،لتامنگیشکر،آشابھونسلے،اشوک کمار،مہندر کپور اور مکیش جیسے عظیم گلو کار اور گلو کارائیں گا چکی ہیں۔ان مذکورہ گیت کاروں کے بہترین سر اور تال میں ڈھلے گیت ہزار بار سننے کے باوجود آدمی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا جب کہ آج کے فحش اور مخرب اخلاق گیت ایک مہذب آدمی سن نہیں سکتا۔
موجودہ انتشار زدہ حالات میں اردو کے ذریعے ایک خوشگوارماحول پیداکیا جاسکتا ہے۔اس ضمن میںمرکزی سرکار اور ریاستی سرکار کے علاوہ اردو والوں پرچند اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔پہلی بات یہ کہ ہندوستان کی تمام ریاستوں میںاردو کو تعلیمی نصاب میں لازمی طور پرشامل کیا جائے۔دوسری بات یہ کہ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے علاوہ تہواروں ،میلوں،سیاسی اور سماجی جلسوں میں،مشاعروں ، قوالیوں،ڈراموں اور گیتوں کے ذریعے عوام میںحب الوطنی اور آپسی بھائی چارے کے جذبے کو اُبھارا جائے۔تیسری اہم بات ہم اردو والوں کے لیے یہ ہے کہ ہم ڈگری اور ملازمت کے لیے اردو نہ سیکھیں بلکہ اردو کے فروغ ،اس کی بقاء اور اس کے جائز حقوق کے لیے ہر طرح کی قر بانیاں دیں۔مزید یہ کہ ہم اردو کو اس کے تمام لوازمات کے ساتھ سیکھیں۔ہمارا پڑھنا،لکھنا اور بولنا صحیح ہو۔تلفّظ اور املا پر خاص دھیان دیں۔ہم کشمیر ی نما اردو،ڈوگری نما اردو اور پنجابی نما اردونہ بولیں بکہ لکھنو،دہلی ،عظیم ٓا باد اور رام پور کے اہل زبان کی طرح اردو بولنا سیکھیں۔ایک سجھاؤیہ بھی کہ اگر ہم اردو کے سچے شیدائی ہیں تو پھر ہمیں چاہیے کہ ہم جس ماحول میں بھی جائیں ہرحال میں اردو میں بات کریں اور اتنی خوب صورت اردو بولیں کہ غیر اردو داں لوگ اردو سیکھنے پر آمادہ ہوجائیں۔آخری بات یہ کہ خوش مزاجی،بذلہ سنجی،تہذیب وشائستگی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی،میل ملاپ اور بھائی چارے سے اردو کا دامن شروع ہی سے مالا مال رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو ہر خاص وعام کی منظور نظر رہی ہے۔اس لیے ہمیں اردو کی ان اعلیٰ روایات کو قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔اردو نے ہر دور میں اتفاق واتحاد اور خلوص ومحبت پر زور دیا ہے۔مثلاؓ بیکل اُتساہی کی ایک نظم’’ایکتا کی آواز‘‘کے ان اشعار پر دھیان دیجیے ؎
وطن کی لاج بنو ،قوم کی نکھار بنو
ہر ایک دل کے لیے حسن اعتبار بنو
بھلا دو فرقہ پرستی کی داستانوں کو
مٹا دوبڑ ھ کے تعصب بھرے جہانوں کو
قسم وطن کی تمہیں، ا یکتا کے گن گائو
دلوں میں عظمت قوم و وطن کو چمکاو
قدم کے ساتھ اگر دل ملیں تو بات بنے
جہاں بھی چاہو وہیں منزل حیات بنے
ہو ایک دل، ذرا آواز بھی ملا کے چلو
چلو تو راہ حوادث میں مسکرا کے چلو
تما م شد
رابطہ :اسسٹینٹ پروفیسر شعبئہ اردو باباغلام شا ہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
9419336120