اردو رثا ئی ادب میں سلا م نگا ری پر بہت ہی قلیل اور کم کام کیا گیا ۔تحقیقی اعتبا ر سے صنف سلا م کی طر ف خا ص تو جہ مر کو ز ہو ئی اور نہ ہی یہ جا ننے کی کو شش کی گئی کہ صنف سلا م کس طر ح اردو شا عری کی بو قلموں دنیا میں اپنے اعماق اور وسعتوں کے سا تھ محو سفر ہے ۔ اس صنف کو جا ننے کے لئے وسیع تنا ظر میں ایک خا ص گفتگو ہو نی چا ہے ۔سلا م عربی لفظ ہے فیر وز اللغا ت میں اس کے معنی’’ تسلیم،آ دا ب ،سلامتی وغیرہ ہیں اصطلاحی معنی میں سلا م نگا ری سے مرا د ’غز ل کے اندا ز میں وہ نظم جس میں وا قعا ت کر بلا کا ذکر ہو ‘اور اس کے علا وہ ’رسو ل خدا ؐ کی با رگا ہ میں صلوٰ ۃ و سلا م عرض کر نا ہے‘۔صنف سلا م کا آ غا ز بھی تقر یبا ً دکن سے ہوا اور بر صغیر میں قدیم شا عرو ں نے سلا م لکھے ہیں ۔عزا دا ری شہدا ئے کر بلا کے عرو ج اور فضاء نے سلا م نگا ری کی فضا، بھی رو شن کردی۔ جن شاعروں نے مرثیہ کہے، اُنہوں نے سلام بھی لکھے۔ اس طرح مر ثیہ کے سا تھ سا تھ صنف سلا م کی جڑ یں بھی مضبو ط ہو تی گئیں اور دو نو ں ایک سا تھ ارتقا ء کی منا زل طے کر تے گئے ۔جیسے مر ثیہ کی کو ئی مخصو ص ہئیت اور شکل و صو رت پہلے معین نہ تھی اسی طر ح صنف سلا م بھی کسی ہئیت کی پابند نہ تھی ۔لیکن جب مر ثیہ کو مختلف ہئیتو ں میں پیش کیا گیا۔ تو اس کی ایک ہئیت مقرر ہوئی۔ جس طرح یہ ایک زما نے سے ’’مسدس ‘‘شکل میں وجو د میں آ ئی اسی طر ح سلا م بھی بطر ز غز ل لکھی جا تی ہے۔اس کے علا وہ کبھی کبھا ر قطعہ ،مثلث ،مر بع ،مثنوی کی ہئیت میں بھی لکھی جا تی ہے ۔را م با بو سکسینہ اپنی کتا ب تا ریخ ادب اردو صفحہ نمبر ۱۶۷ پر لکھتے ہیں :۔’’مر ثیہ کی صو رت میں یہ تغیر ہوا کہ بجا ئے چو مصرعہ کے اب مسدس کا روا ج ہوا ۔اس کی ابتدا ء سودا سے ہو ئی تھی اور خلیق نے اس کو پھیلایا، سلا م بھی بطرز غزل کہے جا نے لگے ۔‘‘اسی طر ح صنف سلا م سے متعلق سید امدا د اثر ؔ نے ’’کا شف الحقا ئق صفحہ نمبر ۴۷۲ پر لکھا ہے ’’عرو ض و تر کیب کی رو سے غزل، سہرا اور سلا م شے وا حد ہیں مگر ان کے مضا مین ایک دو سرے سے علا حدہ اندا ز رکھتے ہیں ۔فا رسی میں سہرا اس وا سطے نہیں ہے کہ اس ملک میں دولہا یا دلہن کو سہرا نہیں با ندھتے ،مگر سلا م ہے ۔سلا م غز ل کی طر ح ا علیٰ درجہ کے مضا مین از قسم وا ردا ت قلبیہ و معا ملا ت ذہنیہ با ندھتے ہیں مگر ان میں غز لیت کا رنگ پیدا ہو نے نہیں دیتے ۔سلا م کی تر کیب کو رنگینی کے سا تھ بھی غز ل علا حدہ ہو نا چا ہے ۔سلا م گو ئی کا لطف یہی ہے کہ شو خی ،رنگینی اور طبعیت دا ری کے سا تھ بھی غز ل سرا ئی سے جدا نظر آ ئے ہیں ۔عمو ما ً سلا م میں وا قعہ کر بلا و شہا دت حضرت علی ؑ و شہا دت امام حسن ؑ و مصا ئب حضرت خا تو ن جنت و رحلت حضرت رسا لت ما ٓ ب ؐ کے مضا مین دا خل رہتے ہیں ۔اور بھی دیگر امو ر الم انگیز و حسرت خیز، جو خا ندا ن پیغمبر ؐ سے متعلق ہیں، اندرا ج پا تے ہیں ۔علا وہ انکے اخلا ق و تمدن و مذ ہبی و دیگر امو ر جلیلہ، جن سے شا عری کی زینت متصور ہے، منظو م کیے جا تے ہیں ۔ایسے مضامین کبھی کبھی غز لو ں میں بھی با ندھے جا تے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ سلا م کے بعد اشعا ر دیکھے جا تے ہیں کہ اگر غز ل میں دا خل کر دیئے جا ئیں تو بے مو قع یا بے محل معلو م ہو ں گے ۔میر انیس ؔ اور میر مو نس ؔ کے بہت ایسے اشعا ر سلا م ہیں کہ اگر غز لو ں میں دا خل کر دئیے جا ئیں تو غز لو ں کا وقا ر تر قی کر جا سکتا ہے ۔‘‘
جب ہم قدیم و جدید مر ثیہ نگا رو ں وسلا م نگا روں کے سلا مو ں میں متذ کر ہ با لا غز لو ں کا رنگ اور ڈھنگ دیکھتے ہیں تو وا قعی غز ل کی ایک نئی دنیا آ با د ہو تی ہے ۔اور غز ل کی وسعت کا فی دور تک بڑ ھ جا تی ہے ۔غز ل سلا م اور سلا م غز ل میں جذ ب ہو تی نظر آ تی ہے ۔شعرا ء کے چند اشعا ر بطو ر نمو نہ دیکھئے :۔ ؎
سلا مِ میر ضمیر ؔ کے چند اشعا ر ملا حظہ ہو ں :۔
مجر ئی شہ نے کہا میں جو نہ بے سر ہو تا
حشر کو تا ج شفا عت نہ میسر ہو تا
شا ہ کہتے تھے اگر تیر نہ لگتا دل پر
دیکھتے تم کہ جوا ن کیا علی اکبر ؑ ہو تا
شا ہ نے حر ُ ؑ سے کہا آ ج جو کچھ تو نے کیا
ایسا کر تا جو حسن ؑ میرا برا د ر ہوتا
سلا م میا ں دلگیر ؔ :۔ ؎
امی سلا می وطن شا ہ تو کچھ دور نہ تھا
لیک شبیر ؑ کو پھر جا نا ہی منظور نہ تھا
ہا ئے اس ملک میں پا ئی تھی سکینہ ؑ نے وفا ت
جہا ں عا بدؑ کو کفن دینے کا مقدور نہ تھا
میر انیس ؔ کے سلا م کے شعر :۔ ؎
گز ر گئے تھے کئی دن کہ گھر میں آ ب نہ تھا
مگر حسینؑ سے صا بر کو اضطرا ب نہ تھا
نمو د و بشر کیا محیط عا لم میں
ہوا کا جب کو ئی جھو نکا چلا حبا ب نہ تھا
فقط حسینؑ کے بچو ں پہ بند تھا پا نی
بہت قر یب تھی وہ نہر قحطِ آ ب نہ تھا
سلا م میر مو نس ؔ :۔ ؎
مجر ئی چلتا تھا شہ ؑ کا جسم بے سر دھو پ میں
شا میا نہ تھا نہ لا شے پر نہ چا در دھوپ میں
بے کفن چہلم تک افتا دہ رہا وہ آ فتا ب
رہنے دیتی تھی نہ زہرا ؑ جس کو دم بھر دھو پ میں
سلا م میں پر انے زما نے سے آ ج تک بھی رثا ئی مو ضو عا ت کے سا تھ سا تھ درود و سلا م پیش کیا جا تا ہے ۔اس میں شا عر کا عقیدہ بھی ہو تا ہے اور مقصد حیا ت بھی ۔بلکہ حصول ثوا ب اور روحا نی تسکین و غذا کی خا طر سلام کہہ دیتے ہیں ۔شعرا ء ما ہ محرم آ تے ہی شہدا ئے کر بلا کی خدمت میں سلا م کہہ دیتے ہیں ۔اور سلام لکھنے اور کہنے کو سعا دت اور عبا دت سمجھتے ہیں ۔جیسا کہ سلا م کے سلسلے میں شیخ محمد ابر اہیم ذوق کے با رے میں مو لا نا محمد حسین آ زا د نے لکھا ہے ’’مر ثیے سلا م کہنے کا انھیں مو قع نہیں ملا ۔با دشا ہ کا قا عدہ تھا کہ شا ہ عا لم اور اکبر شا ہ کی طر ح محرم میں کم سے کم ایک سلا م ضر ور کہتے تھے ۔شیخ مرحو م بھی اس کو اپنی سعا دت اور عبا دت سمجھتے تھے ۔‘‘(تا ریخ ادب اردو جلد نہم ۔محمد انصا راللہ ۔صفحہ نمبر ۱۹۹)شا عر سلام میں درود و سلام جو پیش کر تے ہیں ایسے قسم کے اشعا ر ملا حظہ فر ما ئیں ۔بیجا پو ر سلطنت کے قد آ ور مر ثیہ نگا ر مر زا ں ؔ کے سلا م کے چند اشعا ر دیکھئے ۔:۔
اے حسین ابن علی ؑ سلا م علیک
شا ہِ ؑ جملہ ولی سلا م علیک
جد ہے تیرا محمد مر سل ؐ
سر ورِ انبیا ؐ سلا م علیک
ہے ترے نانوں پر جنم مر زا ں ؔ
جا ن ودل سوں فدا سلام علیک
ولی دکنی کے یہ اشعا ر ملاحظہ کیجئے:۔ ؎
اس نو ر ِ مصطفی ؐ پر بو لو سلا م یا را ں
محبو بِ مر تضیٰ پر بو لو سلام یا را ں
یو ں جی ولی ؔ فدا کر اس شا ہِ کر بلا پر
اس لا ئقِ ثنا پر بو لو سلام یا را ں
صنف سلام اپنے مطلع اور ذخیرہ الفا ظ کے تئیں ایک لگ صنف بن کر حصہ نظم میں ابھر نے لگی لیکن ہئیت غز ل کے اندر اپنا اثر کم ہو نے نہ دیا اور یہ حصہ نظم میں ایک مقبو ل صنف ہے اس سلسلے میں ڈا کٹر سید تقی عا بدی اپنی کتاب ’’سلک سلا م دبیر ‘‘صفحہ نمبر ۵۱ پر یو ں رقمطرا ز ہیں:۔ ’’سلا م سا خت کے اعتبا ر سے ’’غز ل طور ‘‘بننے لگا ۔یعنی سلام میں غز ل کی طر ح مطلع اور مقطع ہو نے لگا ۔سلا م کے تمام اشعا ر مقفیٰ ہو نے لگے ۔سلا م کا ہر شعر ایک نئے مضمو ن کا نقیب بن گیا اور سلاموں میں قطعہ بند اور غزل مسلسل کی طر ح مضمو ن کا تسلسل بھی ملنے لگا ۔‘‘
اگر چہ انیس ؔ نے اپنے با پ کے حکم کی تعمیل کر کے غز ل کو سلا م کہا یعنی سلا م کے اندر غز ل جیسا رنگ و ڈھنگ بھر دیا ۔دوسری طر ف دبیر نے بھی سلا م میں تبد یلیا ں لا ئیں اور شہدا ئے کر بلا کے کر دا ر سے سلام نگا ری کے جز بنا تے گئے۔سلا م میں غز ل کا اثر با قی رہا ۔جیسا کہ کہا جا تا ہے کہ اگر میر انیس ؔ و دبیر ؔ کے سلا مو ں کے اشعا ر الگ کر دیئے جا ئیں تو ان اشعا ر سے خو بصورت غز لیں بن سکتی ہیں ۔دو نو ں بلند پا یہ شا عروں کے چند اشعا ر دیکھئے جن میں غز ل کی چا شنی بھر پور نظر آ تی ہے ۔میر انیس ؔ کے یہ شعر:۔ ؎
زرد ہے چہرہ نحیف و زا ر ہو ں
اے مسیحا ئے زما ں بیما ر ہو ں
بلبلیں دم بھر جدا ہو تی نہیں
کس گُل تر کے گلے کا ہا ر ہو ں
دبیر ؔ جن کے مطبوعہ اشعا ر کی تعدا د ایک لا کھ بیس ہزا ر سے زیا دہ ہے کو دیکھئے۔ ؎
مثا لِ دا نہ پستا ہو ں شب و روز
فلک کی آ سیا ہے اور میں ہو ں
اب شیر یں مخا طب ہے خضر سے
لطیف آ بِ بقا ہے اور میں ہوں
صنف سلام کے سینے کے اندر فصا حت و بلا غت کی بھر پور وسعت مو جو د ہے۔ اس میں فلسفہ ،اخلا ق ،سیرت و کر دا ر ،اصلا ح ،حکمت، نیکی، پا کیز گی نفس اور نمو نہ عقل و عمل وغیرہ سب عیا ں ہے ۔اگر چہ بعض شعرا ء کے سلا مو ں میں مر ثیت کا رنگ نظر آ تا ہے لیکن ان کے بعض اشعا ر سے ہی ان دو نو ں اصنا ف کی الگ الگ پہچا ن ہو تی ہے ۔دوسری اصناف کی طر ح سلا م نگا ری میں بھی شعرا ء نے الفاظ کی سا دگی و شگفتگی ،زبان کی صفا ئی و رنگینی اور مضمو ن کی درد انگیزی کا خا ص خیا ل رکھا ۔سلا م اگر چہ غز ل کی ہئیت میں کہا گیا لیکن یہ کسی دل لگی یا روما نی کہا نی کا نام نہیں ۔بلکہ شہدا ئے کر بلا کی قربانی اور آ پ کے آ ل پر آئی مصیبتو ں کے تذ کرے کا نام ہے ۔صنف سلام میں مر ثیہ کی طر ح اتنی وسعت بھی مو جود ہے کہ اس کے اشعا ر میں حمد ، نعت ،مناجا ت اور منقبت کا اظہا ر بھی ہو تا ہے ۔اس کے علا وہ فلسفیا نہ ،صو فیا نہ ،اخلا قی ،ذا تی اور سما جی مضامین کا اظہا ر بھی کیا جا تا ہے ۔سلا م میں غز ل کی جو چا شنی ،رنگ وڈھنگ اورا صلا حی پہلو خا ص طو ر پر نما ں ہیں وہ سب سے بڑی با ت ہے کیو نکہ مو لا نا حا لی ؔ شا عری کے لئے خا ص طور غز ل کے لئے اصلا حی طرز تحریر اور اصلا حی فکر کا پر چا ر ضرو ری قرا ر دیتے ہیں اور اسی کا روا ج بھی عا م کر نا چا ہتے تھے ۔اگر حا لی کے اس نظر یئے پر غو ر کر یں تو صنف سلام، جو غزل کی ہئیت میں کہی جاتی ہے۔ پہلے ہی اصلا حی فکر اور پہلو نظر آ تے ہیں ۔حا لی ؔ سے پہلے بھی مر ثیہ گو شعرا ء کے سلا مو ں میں اصلا حی فکر و نظر مو جو د تھی ۔خا ص طور پر انیس و دبیر ،عشق ؔ اور تعشقؔ وغیرہ کی مثا لیں دیکھئے :۔؎
مر زا عشقؔ کا یہ شعر ملا حظہ ہو :۔
تھی رن میں دمِ صبح شہِ دیں پہ کڑی دھو پ
پھر گلشنِ ایجا د میں ایسی نہ پڑی دھو پ
آ جا تی ہیں زلفیں جو رخِ سرو ر دیں پر
دو چا ر گھڑی چھا ئو ں ہے دو چا ر گھڑ ی دھو پ
مرزا تعشق ؔ کا نمو نہ کلا م :۔
صبحِ عا شو ر کا اب تک ہے دلو ں کو دھڑ کا
کہ فغا ں کر تے ہیں مر غا ن ِ سحر آ خرِ شب
کو رہے پیشِ نظر شا مِ جوا نی ہے تمام
را ت بھر پھر کے ملا ہے مجھے گھر آ خرِ شب
میر انیس ؔ کے ایک سلام کا مشہو ر شعر دیکھئے :۔
یہ جھر یا ں نہیں ہا تھو ں پہ ضعفِ پیری نے
چنا ہے جا مۂ ہستی کی آ ستینو ں کو
لگا رہا ہو ں مضا مینِ نو کے پھر انبا ر
خبر کر ومر ے خر من کے خو شہ چینو ں کو
مختصر اً یہ کہ صنف سلا م کو آ گے بڑ ھا نے اور زندہ رکھنے میں بر صغیر ہند و پا ک کے شعرا اپنے قلم کی جنبش سے صنف سلام کو سلام کر تے نظر آ تے ہیں ،لیکن سلا م کی جا نب جتنی پیش رفت اور اس کے ارتقا ء کے خا طر جتنی جگر کا وی کی ضرو رت ہے ویسا نہیں ہو پا رہا ہے ۔شاعر ی کی تما م اصنا ف میں مر ثیہ کے سا تھ سا تھ سلا م نگا ری ایک ایسی صنف ہے جس میں طبع آ زما ئی کم ہی شا عر وں نے کی ہے ۔جبکہ شا ید ہی کو ئی ایسا مر ثیہ گو شا عر ہو جس نے غز لیں اور مر وجہ شعری اصنا ف میں بھی قا در الکلا می کا ثبو ت پیش نہ کیا ہو ۔مر ثیہ اور سلام کے فن کے لئے بصیرت افر و ز قدرت کی ضر ورت ہے ۔ہما ری وا دی کشمیر میں بھی کچھ ہی شا عر ایسے گز رے ہیں جنہو ں نے سلا م نگا ری میں تھو ڑی بہت جہت کی ہیں اور اپنی فکر ی بصیرت کو صفحہ قر طا س پر لا یا ۔آ خر پر یہ با ت ہر اردو زبا ن و ادب سے تعلق رکھنے وا لے خا ص طو ر پر شعرا ء حضرا ت سے کہ سلام نگا ری کی طر ف تو جہ کر نا وقت کی اہم تر ین ضر ورت ہے ۔اس سے شعر و ادب کا دا من وسیع سے وسیع تر ہوجا ئے گا ۔اگریہ صنف بے تو جہی کا شکا ر ہو ئی تو وہ دن دور نہیں جب شعر و ادب میں بہت سے بڑا خلا پیدا ہو جا ئے گا ۔
���
۔ملہ بو چھن ماگا م کشمیر ۔1 19340
موبائل نمبر؛7889560193