نریندر ناتھ دت یعنی سوامی وویکانند کی سری رام کرشن سے ملاقات گویا ان کی فکری زندگی میں یوٹرن (U-turn) کے مترادف تھا۔ برہمو سماج کے زیر اثر وہ مورتی پوجا کے خلاف ہوگئے تھے اور ایک ہی ’’نراکار ایشور‘‘ کا عقیدہ رکھتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی زندگی میں ایسا انقلاب آیا کہ وہ اس عقیدہ کے سخت خلاف ہوگئے۔ سری رام کرشن سے تعلق بڑھا تو خود شناسی کی زبردست خواہش نے نریندر کو بے چین کردیا، کالج کی پڑھائی اور گھر کی ذمہ داریاں دونوں زنجیر پا ثابت ہو رہی تھیں، اُکتاکر نریندر بار بار دکشنیشور کی پُرامن فضا میں سانس لینے آنکلتا۔ (ص: 34) دیوی دیوتائوں کی مورتیوں میں ان کی آستھا مستحکم ہوگئی۔ وہ بھی ’’کالی ماتا‘‘ کے بھگت ہوگئے۔ گرو کے چرنوں میں بار بار جاتے رہے۔ حتیٰ کہ سنیاس دھارن کرکے انہوں نے پورے بھارت کی یاترا کی۔ اپنے گرو سری رام کرشن کے مشن کو پورا کرنے کے لیے نریندر نے ’بارانگر‘ میں اس کی بنیاد رکھی کیوںکہ 16؍ اگست 1886ء کو سری رام کرشن کے دنیا سے جسمانی طو رپر کنارہ کش ہونے سے چند روز قبل انہوں نے اپنے مشن کی ذمہ داری نریندر کو سونپ دی تھی۔ ’ویراگ‘ کی مقدس رسم باقاعدہ ادا کی گئی اور نریندر ناتھ اب سوامی کہلانے لگے۔ وویکانند کا نام انہوں نے امریکہ جانے سے پہلے اختیار کیا۔ (صفحہ 39)
سوامی وویکانند نے نوجوان سنیاسیوں کی ایک جماعت بنالی تھی۔ ریاضت کے علاوہ مغربی اور مشرقی فلسفہ اور مذہبی ادب کا مطالعہ ان کے روز مرہ کے کام میں شامل ہوگیا۔ دو سال تک جبر کرکے اپنے مَٹھ میں رہے۔ اس کے بعد انہوں نے 1888 ء میں مٹھ چھوڑ دیا۔ وہ کلکتہ سے بنارس، اجودھیا، لکھنؤ، آگرہ، برندابن اور ہاتھرس گئے لیکن صحت کی خرابی کے سبب ایک سال کے بعد پھر ’بارانگر‘ لوٹ آئے۔ اس سفر میں ہاتھرس اسٹیشن کے ماسٹر شرت چندر گپتا سوامی جی کے چیلے ہوگئے۔ وہ ہمالیہ کی پہاڑیوں پر بھی ساتھ رہے۔ اس طرح سوامی جی مٹھ سے نکل کر جگہ جگہ گھومتے رہے اور پھر واپس آتے رہے۔ بالآخر 1891ء میں تنہا ہندوستان بھر کی یاترا پر نکل پڑے۔ اپنی ہندوستان یاترا میں سوامی جی نے ہر طرح کے دُکھ جھیلے، معاشی تنگی برداشت کی، لیکن من کو شانتی بھی ملی۔ راجپوتانہ کے بیدار مغز راجوں سے بھی ان کی ملاقات ہوئی۔ الور کے مقام پر مہاراجہ منگل سنگھ جو مورتی پوجا میں وشواش نہیں کرتا تھا، سوامی جی نے ایک تاریخی دلیل سے انہیں مورتی پوجا کے لیے قائل کرلیا۔ اس طرح سوامی وویکا نند نے ہندوستان میں برہمو سماج اور آریا سماج کے ان عقائد کو پاش پاش کردیا، جنہوں نے سماج میں مورتی پوجا کی مخالفت کی تھی۔ (صفحہ 44-45) اس بھارت یاترا میں سوامی وویکانند اپنے مشاہدے اور تجربات سے جس نتیجے پر پہنچے، خود ان کے الفاظ میں اس طرح ہے:
’’۔۔۔ میرا عقیدہ ہے کہ جب تک تنگ دستی اور دُکھ درد کو نہ مٹایا جائے، مذہب اور آتم گیان کی باتیں کرنا بالکل فضول ہے، میں اپنے دیش باسیوں کی بھلائی اور بہبودی کے لیے امریکہ جانے کا ارادہ رکھتا ہوں، میرے بھائیو میں اس مذہب کو نہیں سمجھ پایا جس کے سائے میں غریبی بستی ہو، میرا دل اب بہت وسیع ہوگیا ہے اورمجھے دیش بھر کے درد کا احساس ہے۔‘‘ (صفحہ 47)
1892ء کے آخری دنوں میں سوامی جی کنیا کماری سے مدراس آئے۔ پہلی بار شہرت عامہ نے ان کے قدم چومے اور سری رام کرشن کا پیام پہلے مدراس کے جوشیلے نوجوانوں نے قبول کیا۔ ان ہی کی بدولت امریکہ میں منعقد ہونے والی Parliament of Religions میں شرکت کرنے کے لیے 31 مئی 1893 ء کو بمبئی سے جہاز پر امریکہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ امریکہ جانے سے قبل مہاراجہ کھیتری کے کہنے پر انہوں نے اپنا سنیاسی نام’ ’وویکانند‘ ‘اختیار کیا۔ اسی نام سے وہ پوری دنیا میں مشہور ہوئے۔
امریکہ کا سفر سوامی وویکانند کے لیے سنگِ میل ثابت ہوا۔ انہیں وہاں ایک مشرقی دانشور اور ہندو مذہبی پیشوا کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کے پورے جوہر دکھانے کے مواقع ملے۔ ایسا لگتا ہے کہ سوامی جی ہندوستان کے تنہا مفکر و دانشور ہیں جنہوں نے نہ صرف ہندو مذہب کے مشرکانہ افکار کی حفاظت اور قدیم مشرکانہ تہذیب و ثقافت سے اسے جوڑنے کی انتھک کوشش کی بلکہ عالمی سطح پر فلسفہ کی زبان میں متعارف کرایا۔ وہ اگرچہ جدید تعلیم یافتہ تھے لیکن مذہبی طو رپر وہ قدیم سوچ کے حامل رہے۔ لہٰذا انہوں نے جدید اور قدیم کے آمیزہ کے ساتھ عصری لب و لہجہ میں سائنٹفک ایپروچ اختیار کیا جس سے امریکی عوام و خواص میں ان کی شہرت ہوگئی۔ 11 ستمبر 1893 ء کو جس وقت شکاگو کے ’کولمبس ہال‘ میں پارلیمنٹ آف ریلیجنز کا اجلاس شروع ہوا تھا، وہاں دنیا بھر کے کروڑوں باشندوں کے مذہبی نمائندے جمع تھے۔ ہال کے عین درمیان میں رومن کیتھولک کے کارڈینل گبنز بیٹھے تھے۔ ان کے دائیں بائیں مشرقی مذہبی نمائندے پرتاپ چندر موجمدار اور نگارکر تھے جنہیں برہمو سماج نے بھیجا تھا۔ لنکا کے بدھ مت کی نمائندگی دھرم پد کر رہے تھے۔ مسز اینی بسنٹ اور ان کے دو ساتھی گاندھی (مہاتما گاندھی کے ایک دور کے رشتہ دار) اور چکرورتی جین دھرم اور تھیوسوفیکل سوسائٹی کی طرف سے گئے ہوئے تھے۔ ان سب کے درمیان سوامی وویکانند بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ (صفحہ 53)
سوامی جی نے اس اجلاس کی اپنی پہلی مختصر تقریر میں پورے جلال کے ساتھ بتایا کہ ’’ہندو مذہب تمام مذاہب کا سرچشمہ ہے۔ یہی ایک مذہب ہے جو نہ صرف کسی سے بَیر رکھنا سکھاتا بلکہ ہر مذہب کو سچا سمجھتا ہے۔ ہندو مذہب کسی بھی مذہب کی نفی نہیں کرتا بلکہ وہ سب مذاہب کی تصدیق کرتا ہے کیوں کہ ہر ہندو کا اعتقاد ہے کہ بھگوان تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں اور سب کے سب اس تک پہنچانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔‘‘ (صفحہ 54-55)
سوامی وویکانند کی تقریر کے مذکورہ اقتباس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کتنی ذہانت سے اپنے اس اپروچ کے ذریعے دنیا کے دیگر مذاہب کے نمائندوں کی بولتی بند کردی ہوگی۔ انہوں نے کثرت میں وحدت، (Unity in Diversity) کو تخلیق کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے فلسفہ کی زبان میں ہندو دھرم کی دعوت عالمی سطح پر 120؍ برس قبل دی۔ انہوں نے ہندو دھرم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا:
’’اگر کبھی تمام دنیا میں کوئی ایک عالمگیر مذہب ہوتا ہے تو وہ وہی مذہب ہوسکتا ہے جس کا کسی خاص مقام یا وقت سے کوئی تعلق نہ ہو، جو کسی بھی طرح محدود نہ ہو، جس کا خدا سب کا خدا ہو، جس کے سورج کی روشنی بھگوان کرشن اور یسوع مسیح دونوں کے پجاریوں کو یکساں طور پر حاصل ہو، جس کے پہلو میں سنتوں اور سادھوئوں کے لیے ہی نہیں بلکہ گنہ گاروں کے لیے بھی جگہ ہو، جو براہمن یا بودھ یا عیسائی یا مسلمان کا مذہب خصوصی نہ ہو بلکہ ان سب کا حامل ہو، جس میں نئے خیالات اور ارتقاء کی گنجائش ہو۔۔۔۔‘‘ (صفحہ 56)
دوسری طرف سوامی وویکانند نے امریکہ سے واپسی پر مدراس میں تین لکچرز دیے جن کے عنوان تھے ’میرے کام کا پلان‘، ’ویدانت کا مشن‘ اور ’بھارت کا مستقبل‘۔ سوامی جی نے کہا:
’’۔۔۔ ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہماری مذہبی کتابوں مثلاً اُپنشدوں اور پرانوں میں حق و عمل کے جو خزانے پوشیدہ ہیں انہیں عوام تک پہنچایا جائے۔ ہمارے آشرموں میں سادھو سنتوں کی گپھائوں اور کٹیائوں میں جو حقائق پنہاں ہیں ،انہیں آشکارا کیا جائے تاکہ تمام ملک میں ہمالیہ سے کنیا کماری تک اور سندھ سے برہم پُتر تک روحانیت ایک آگ بن کر پھیل جائے۔‘‘
امریکہ کے بعد سوامی وویکانند نے یوروپ میں بھی اپنی سحر انگیز تقریروں سے عوام و خواص کو مسحور کردیا۔ انگلینڈ میں انہیں سچے مددگار اور دلی دوست ملے۔ ان سب میں قابل ذکر مس مارگریٹ نوبل ہیں جو بعد میں سسٹر نویدتا کے نام سے مشہور ہوئیں۔ مس نوبل ایک درس گاہ کی ہیڈ مسٹریس تھیں جو سوامی جی کے خیالات سے ان کی گرویدہ ہوگئیں۔ ان کے ساتھ مس مُلر (Miss Henrieta Muller)، مسٹر سٹرڈی (Mr. E.T. Sturdy) اور مسٹر ومسز سیویر (Mr. & Mrs. Sevier) بھی سوامی جی کے خواص میں شامل ہوگئے۔ لندن میں قیام کے دوران میں 28 مئی 1896 ء کو سوامی جی کی ملاقات جرمنی کے پروفیسر میکس مُلر (Prof. Max Muller) سے ہوئی جو آکسفرڈ یونیورسٹی میں استاد تھے۔ انہوں نے ایک کتاب ’’سری رام کرشن کی سوانح حیات اور اپدیش‘‘ لکھی۔ اس کی اشاعت سے انگریزوں میں ’’سری رام کرشن‘‘ کے مشن کو بڑی تقویت ملی۔ ہندوستان میں سوامی وویکانند کے دو مضبوط بازو سوامی شردھا نند اور سوامی ابھیدانند موجود تھے۔ لندن میں کام کرنے کے لیے سوامی ابھیدانند کو مقرر کیا گیا اور نیویارک سوامی شردھانند کو بھیجا گیا۔
امریکہ اور یورپ میں اپنے مشن کی تکمیل کے بعد سوامی وویکانند نے جنوبی اور شمالی ہندوستان کا انتھک دورہ کیا۔ جنوری 1898 میں وہ کلکتہ واپس آگئے۔ انہوں نے اپنے شاگردوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ دی۔ مغربی چیلوں میں انہوں نے بالخصوص سسٹر نویدتا (Miss Margret Noble) کا انتخاب کیا۔ نوبل نے برہمچریہ اختیار کرلیا۔ کلکتہ میں سوامی جی نے کہا کہ انگلینڈ نے سسٹر نویدتا کی صورت میں ہندوستان کو ایک بیش بہا تحفہ پیش کیا ہے۔ (صفحہ 93)۔ جولائی 1898 ء میں امرناتھ (کشمیر) کی یاترا میں سسٹر نویدتا بھی ان کے ساتھ تھیں۔ امرناتھ یاترا کے بعد سوامی جی کا بھگتی بھائو یکایک پھر ’کالی ماتا‘ کے چرنوں کی طرف جھکا اور کہا جاتا ہے کہ جلد ہی ’جگت ماتا‘ نے بھی ان کو درشن دئے۔ اس وقت انہوں نے اپنی مشہور نظم ’کالی ماتا‘ قلم بند کی۔ انتھک کام اور سفر کی وجہ سے سوامی جی کی صحت لگاتار گرتی جارہی تھی۔ دریں اثنا 9 دسمبر 1898ء کو آشرم کی رسم افتتاح کے بعد 2 جنوری 1899ء سے بیلور مٹھ ’سری رام کرشن مشن‘ کا مرکزی دفتر بن گیا۔ انہی دنوں مارچ 1899 ء میں مسٹر اور مسز سیویر نے سوامی سروپ نند کی مدد سے ہمالیہ کے دامن میں مایاوتی کے مقام پر ’ادوائیتا‘ آشرم بھی قائم کرلیا۔
اس مختصر کتاب میں سوامی وویکا نند کی مذہبی جدوجہد اور جدید دنیا میں ہندو دھرم کی ترویج و اشاعت کی مکمل داستان ہے۔ اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنی حیات کے 39؍ برس میں سوامی وویکانند نے ویدک تہذیب و ثقافت کو جدید ہندوستان کا مستقبل قرار دینے کا جو کارنامہ انجام دیا، اسے یہاں کے ہندو دانشور کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ 4؍ جولائی 1902 (بروز جمعہ) کو بالآخر سوامی جی نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ کی طرف لے جانے میں سوامی وویکانند کے فلسفے کا بڑا دخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس (قیام 1925ء) کے حضرات سوامی وویکانند کو اپنا نظریاتی استاد اور غیر معمولی مثالی شخصیت قرار دیتے ہیں۔ ہمارے ملک کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی جن کے نام کا پہلا لفظ ’نریندر‘ ہے، سوامی وویکانند کے سچے پیرو نظر آتے ہیں اور اپنی تقریروں میں وہ سوامی وویکانند کی طرح جدید ہندو سماج کی تشریح کرتے ہیں۔ عنانِ حکومت سنبھالنے کے بعد انہوں نے بھی سوامی جی کی طرح امریکہ کا رُخ کیا۔ سوامی جی کے لکچر کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’فطرت کی منتخب کردہ ترتیب سے جھگڑنے اور سر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وہ جو کم تر درجے کا کام ادا کر رہا ہے ،ضروری نہیں کہ وہ کم تر انسان ہو۔ کوئی بھی انسان اپنے فرائض یا کام کی نوعیت کے مطابق پرکھا نہیں جاسکتا، اور نہ ہی اس کے بارے میں فیصلہ کن رائے دی جاسکتی ہے، ایک انسان اپنے فرائض کتنے مہذب انداز میں اور کتنی جاں فشانی سے انجام دیتا ہے ،صرف یہی بات اس کے بارے میں فیصلہ صادر کرسکتی ہے۔‘‘ (کرم یوگ، صفحہ 73-72)
’کرم یوگ‘ (عمل کا یوگ) سوامی وویکانند کے ان لکچرز کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مختلف اوقات میں ’کرم یوگ‘ کے موضوع پر دئے۔ اس کتاب میں آٹھ عنوان یا باب کے تحت آٹھ لکچرز شامل ہیں۔ عنوان اس طرح ہیں: (۱) ’کرم‘ کا کردار پر اثر (۲) ہر ایک اپنے مقام پر عظیم اور اعلیٰ ہے (۳) ’عمل‘ کا راز (۴) فرض کیا ہے؟ (۵) ہم دنیا کی نہیں بلکہ اپنی مدد کرتے ہیں (۶) وابستہ نہ ہونا ہی ’نیستی‘ ہے (۷) نجات (۸) کرم یوگ کا اصول۔
اس کتاب میں سوامی وویکانند کی مفکرانہ اور فلسفیانہ گفتگو ہے۔ انہوں نے ’کثرت میں وحدت‘ کے اصول کے تحت ’انسانی عمل‘ کا وسیع مفہوم بڑے د ل نشین انداز میں مثالوں کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ سوامی جی اول تا آخر ’کالی ماتا‘ کے بھگت رہے۔ لہٰذا ان کی گفتگو کا ماحصل ’کرم‘ کی ’روحانی ترقی‘ کے اس اصول میں مضمر ہے جہاں ایک خالقِ کائنات کے تصور کے ساتھ انسان کی ’خود سر آزادی‘ کا تصور بھی موجود ہے۔ گویا خالق کائنات (اللّٰہ) محض (نعوذ باللّٰہ )تماشائی ہے۔ سوامی جی کے بقول ’’دراصل فطرت میں قانون کا وجود ہی نہیں ہے۔‘‘ (صفحہ 121، نجات)۔ سوامی جی آگے فرماتے ہیں: ’’جب تک زندگی بعد از مرگ کی پیاس نہ چھوڑی جائے، اس عارضی مشروط وجود سے مضبوط وابستگی کا خاتمہ نہ ہو، ہم لامتناہی آزادی کی ایک جھلک تک کا نظارہ نہیں کرپائیں گے۔ (صفحہ 126)
سوامی وویکا نند نے اپنے تمام لکچرز میں جو مفکرانہ و دانشورانہ باتیں بیان کیں ان میں بلاشبہ کشش اور الفاظ کی سحر انگیزی ہے لیکن انسان کی حقیقی زندگی اور خالق کائنات سے اس کے تعلق کے حقائق سے چشم پوشی محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے یقینی طور پر آخری الہامی کتاب قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہوگا۔ اگر انہوں نے قرآن مجید کی صرف تین آیات (سورۃ العصر: 103) کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہوتا تو ان پر ’عمل‘ (کرم یوگ) کے بے شمار راز منکشف ہوتے۔ اس کے بعد وہ سورۃ التین: 95 کی آٹھ آیات کو اپنی تحقیق کا موضوع بناتے تو انہیں صحیح سمت میں روحانی بالیدگی عطا ہوتی۔ ’اسلام‘ نہ کسی مولوی کا مذہب ہے اور نہ ہی کسی صوفی کا، یہ روئے زمین کے تمام انسانوں کا دین (Way of Life) ہے۔ یہ اللّٰہ کا دین ہے، دین حق ہے لیکن خارجی اثرات کو زائل کیے بغیر ’دین حق‘ میں غوطہ نہیں لگایا جاسکتا۔ رسومِ دنیا، توہم پرستی اور شرک سے خالق کائنات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ باتیں ہمیں قرآن مجید کی تلاوت سے معلوم ہوتی ہیں۔ دنیا میں مذہب کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان قدیم ہے۔ حیرت ہے کہ سائنٹفک اپروچ رکھنے والا ہمیشہ تازہ تحقیق کو اہمیت دیتا ہے لیکن سوامی جی نے قرآن کی الہامی آیات پر غور نہیں فرمایا۔ دنیا میں پائی جانے والی مقدس کتابوں میں قرآن مجید سے زیادہ up to date کون سی کتاب ہوسکتی ہے؟ آخر کیوں ہم اس کی جانب متوجہ نہیں ہوتے جو الہامی ہے، کسی انسان کی تخلیق نہیں۔ خالق کائنات کی طرف سے ’انسان‘ کے موضوع پر انسان کے لیے تا قیامت فطری تعلیمات عطا کردی گئی ہیں۔ انسان دنیا میں تمام تر سرکشی یا گمراہی کے باوجود اپنے خالق کی فطری ہدایات سے نہیں بھاگ سکتا۔ ہمارے ملک میں خود ہندو مذہب کے سینکڑوں روپ ہیں۔ ’جیوتش اور توہم پرستی‘ ہندو مذہب ہی کی دَین ہے۔ اس کے باوجود حال ہی میں یوگ گرو بابا رام دیو نے ایک انٹرویو میں بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں: کوئی شنی کو لے کر بیٹھا ہے، کوئی راہو کیتو، بھوت کو لے بیٹھا ہے۔ کالے پتھر کو شنی سمجھ رکھا ہے۔۔۔ کالا پتھر کیا بگاڑ لے گا؟ سورج، چاند، دھرتی سب بھگوان نے بنائے۔ اس کا بنایا ہوا ہر دن شبھ ہوتا ہے۔ چاروں دِشائوں میں پرماتما ہے، واستو شاستر پاکھنڈ ہے۔‘‘
مذکورہ باتیں ایک انسان کے اندر کی فطری باتیں ہیں۔ اب ان باتوں کو قرآن مجید میں تلاش کرلیجیے۔ آپ محسوس کریں گے کہ بابا رام دیو کے دل کی یہ باتیں قرآنی تعلیمات سے حرف بہ حرف مطابقت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’شانتی مارگ‘ یا ’صراط مستقیم‘ کے لیے رہنما کتاب (Guide Book) صرف قرآن مجید ہے۔ اردو زبان میں ’رام کرشن مشن‘ کی ان دونوں کتابوں کی اشاعت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب کہ ببانگ دہل اردو کو مسلمانوں کی زبان کہا جارہا ہے، سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔ بہرحال اردو زبان میں ان کی اشاعت سے اردو سرمائے میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ 쬄쬄쬄쬄쬄쬄
ایڈیٹر، اُردو بک ریویو، نئی دہلی