ادبی تنقید کی مختصر تشریح یہ ہے کہ یہ ایک ایسی کسوٹی ہے جس پر ادبی تخلیقات کے معیار اور کوالٹی کو پرکھاجاتا ہے مگر اس کسوٹی کا استعمال کرنا بھی ایک مکمل فن ہے اور یہ فن مختلف اصولوں پر قائم ہے ،اس لئے ایک نقاد کا اس فن سے واقف ہونا لازمی ہے تاکہ کسی تخلیق پر اپنا جائزہ پیش کرتے وقت اُس سلیقے کو بھی زیر نظر رکھ سکے جو تنقید کے لئے ضروری ہے اور تنقید میں تخلیق کار کی ذات کو نشانہ نہ بنائے ورنہ دیکھا گیا ہے کہ یہاں کچھ لوگ ذاتی حملوں کو بھی تنقید کے ہی زُمرے میں لاتے ہیں۔ ادبی تنقید کی کچھ اپنی نزاکتیں ہیں اور کچھ اپنی نفاستیں ہیں اور ایک ماہر نقاد اُن سے پوری طرح باخبر ہوتا ہے۔ تخلیق کار کے لئے ضروری نہیں کہ بہت زیادہ پڑھا لکھا ہو یا اُس کا مطالعہ وسیع ہو مگر نقاد میں ایسی قابلیت ہو تو وہ اُس کی تنقیدی بصیرت کو زیادہ معتبر بنادیتی ہے، کیونکہ نقاد اپنی قابلیت کی روشنی میں ہی کسی تخلیق کی تشریح کرتا ہے اور اس کے حُسن وقبح کی تشخیص کرتا ہے اور اِس کی قدر کا اندازہ لگاتا ہے اور معیار ناپتا ہے۔ نقاد میں علمی استعداد کے علاوہ اچھی فہم و فراست کا ہونا بہت ہی ضروری ہے،۔دراصل تنقید کا انہی باتوں پر انحصار ہوتا ہے کیونکہ تنقید کسی تخلیق کا محض سرسری جائزہ نہیں ہوتا بلکہ یہ تخلیق کی تحقیق بھی ہوتی ہے جس کے لئے نقاد کو تخلیق کار کے تخلیقی منشا ، خیالات اور تخلیق کی باریکیوں کو سمجھنے کے لئے اس کی گہرائیوں میں اُترنا پڑتا ہے، تب ہی وہ ایک تخلیق کار کی سوچ کی گہرائی، اسلوب، مشاہدے اور تجربے کا بہت حد تک صحیح اندازہ لگانے میں کامیاب رہتا ہے۔ اسلوب کیا ہے؟ یہ ادبی لہجے کا نام ہے اور جتنا یہ خوبصورت ہو اُتناہی تخلیق کے اظہار میں نفاست اور چاشنی پیدا ہوتی ہے۔ نقاد میں خود جمالیاتی حس تیز ہونی چاہئے تاکہ وہ تخلیقی حسن کو بھی محسوس کرنے کی استعداد رکھتا ہو۔
لفظوں کے انبار لگانے کو تنقید نہیں کہا جاسکتا بلکہ الفاظ قاری تک کوئی نہ کوئی مطلب کی بات پہنچانے چاہئیں ،اسی لئے الفاظ کا استعمال قلم کار کی مہارت اور قلمی استعداد اور اُس کی ادبی سطح کا تعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔ میرے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ کچھ لوگوں کو جب شاعر اور فکشن نگار کی حیثیت میں تسلیم نہیں کیا گیا تو وہ انتقاماً نقاد بن گئے اور انتقامی تنقید لکھنا شروع کردی۔
ہمارے یہاں صحیح الفکر اور مخلص نقادوں کی بہت کمی ہے۔ نقاد اور حملہ آور، تنقید اور حملے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ برصغیر میں عام طور اور کشمیر میں خاص طور جب تنقید کی جاتی ہے تو لگتا ہے کہ کوئی کسی پرحملہ کررہا ہے۔ کسی کے کام یا تخلیقات کا صحیح جائزہ یا تجزیہ پیش کرنے کے بجائے تخلیق کار کی ذات کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے اور تخلیقات کی تنقید کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ لگتا ہے نقاد ادیب کو کوس رہا ہے اور اناپ شناپ بک رہا ہے۔ تنقید میں بھی سلیقہ چاہئے۔ یہ ایک مستند فن ہے اور کسی کا اس ہُنر کے تقاضے جانے بغیر میدان ِ نقد وبصر میں اُترناایسا ہی جیسے کوئی غیر سند یافتہ ڈاکٹر کسی مریض کو آپریشن کرنے بیٹھ جائے۔ صحیح الفکر اور مخلص نقادوں کی موجودگی سے بڑے بڑے ادیب اُبھرتے ہیں ، سنورتے ہیںاور اُن کی صلاحیتوں کو جلاّ ملتی ہے۔ کسی قوم میں باصلاحیت اور فنی مہارت رکھنے والے نقادوں کی حیثیت کسی کارواں میں مشعل برداروں جیسی ہوتی ہے کہ تاریکیوں کا سینہ چیر کر راستوں کو نمایاں کرتے ہیں۔
تنقید اور ادب کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جب کسی ادیب کا کوئی ادبی نوشتہ یا ادبی تخلیق سامنے آتی ہے تو سب سے پہلے قاری اس کا نقاد بن جاتا ہے۔ اس اعتبار سے تنقید کی تاریخ وہی ہے جو ادب کی ہے۔ یہ نقاد ہی ہوتا ہے جو ادیب کی کسی تخلیق کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرکے اس کی تخلیق کے مقام ومرتبہ کا تعین کرتا ہے مگر ایک تخلیق کے مقام ومرتبہ کے تعین پر کوئی رائے دیتے وقت یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ اس تخلیق کو پرکھنے اور جانچنے والے نقاد کا خود علمی حلقوں میں کیا مقام ومرتبہ ہے! کیونکہ تنقید بھی ایک
Comparative term ہے۔اس لئے نقاد ایک تخلیق کے مقام ومرتبہ کا موازنہ اسی مبلغ علم کے اعتبار سے کرتا ہے جو اس کے پاس ہو،جب کہ مقام ومرتبہ کی اصطلاح خود ایکRelative termہے اور یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ نقاد مقام ومرتبہ کی اصطلاح کو کس مفہوم سے جوڑتا ہے۔
کسی شخص نے ایک شکاری کتے سے پوچھا: ہرن بھاگنے میں تم سے کیوں بڑھ جاتا ہے اور تم اس کو کیوں نہیں پکڑ پاتے؟ اس نے جواب دیا:اس لئے کیونکہ وہ اپنے لئے دوڑتا ہے اور میں اپنے آقا کے لئے‘‘۔حضرت ابوالحسن علی ندوی رحمتہ اللہ علیہ اپنی ایک تصنیف میں لکھتے ہیں کہ’’ ادب وانشا کے ذخیرہ کا اگر ایک نئے اور زیادہ حقیقت پسندانہ اور گہرے نقطہ نگاہ سے جائزہ لیا جائے تو اس کو دو قسموں پر تقسیم کرنا بے جا نہ ہوگا۔ ایک وہ تحریریں اور اظہار خیال جو اندرونی تقاضے اور داعیہ اور کسی طاقت ور عقیدہ یا یقین کے ماتحت وجود میں آئیں اور ان سے مقصود کسی فرمائش یا حکم کی تعمیل، دنیوی منفعت یا کسی صاحب اقتدار یا صاحب ِثروت انسان کی رضامندی نہیں تھی بلکہ وہ خود اپنے ضمیر یا عقیدہ کے فرمان کی تعمیل تھی، جس میں اہل حکومت اور اہل ثروت کے فرمان سے زیادہ قوت ہوتی ہے اور جس سے سرتابی کرنا کسی صاحب ضمیر کے بس میں نہیں ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو کسی فرمائش کی تعمیل یا دنیوی منفعت کے حصول یا کسی بالاتر انسان کے حکم کی تعمیل میں ہو، ادب کی دونوں قسموں میں زمین و آسمان کا فرق ملے گا۔‘‘پہلا ادب ’’ہر کہ از دل خیزد بر دل ریزد‘‘ کا مصداق ہے، وہ طویل عرصہ تک زندہ رہتا ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر اس کا موضوع دینی اور اخلاقی ہے تو اس کا قلب اور اخلاق پر گہرا اور انقلاب انگیز اثرخ پڑتا ہے، ہزاروں آدمیوں کے دل میں اس کے پڑھنے سے اصلاح کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف دوسری قسم کا ادب دادوتحسین اور عارضی سروروخوشی کے سوا روح اور قلب پر اپنا کوئی دیرپا اثر نہیں چھوڑتا، اس کی زندگی اور عمر مختصر ومحدود ہوتی ہے۔ پہلے ادب میں بے ساختگی اور بے تکلفی ہوتی ہے، دوسرے ادب میں تصنع اور اہتمام۔ اُمید ہے میری یہ حقیر گزارشات ادب کی بارگاہ میں بے ادبی نہ سمجھی جائیں گی۔ہمارے ادب کا المیہ یہ ہے کہ ہمارا ادب ظاہر ہی نہیں ہوسکا اور عام طور کچھ نادانوں کو ہمارے ادبی سفیر جتلاکر اور آگے کرکے ہمارے ادب کو تماشے کی صورت دی گئی۔ ہمارے یہاں ادبی قابیل زبردستیوں کے معیار پر ہمارے تمدنی ہابیل کو اپنی ہوائے نفس کی بھینٹ چڑھاتے رہے۔ ہمارے یہاں نقادوں کا فقدان ہے ، اس لئے وہ لوگ کم ہی نظر آرہے ہیں جن کے متعلق یقین کے ساتھ کہا جاسکے کہ یہ ادیب اور بہروپئے میں فرق کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ہمیں آج تک اسی زعم میں مبتلا رکھا گیا کہ کشمیر یونیورسٹی کا کشمیری شعبہ اور کلچرل اکیڈمی طلسم خانے ہیں جہاں ہمارے خوابوں کی پریاں پالی جارہی ہیں اور ان طلسم خانوں کا نظم وانتظام ان جادو گروں کے سپرد ہے جو اپنے منتروں سے ان پریوں کو حسن کے اس مقام پر پہنچادیں گے کہ ان کی تجلیوں کی تاب زمانے کو نہ ہوسکے۔ میری سرکار سے درخواست ہے کہ ان آسیب کدوں کے درودریچوں کو توڑ دے تاکہ وہ پریاں آزاد ہوسکیں۔ ع کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں