فکرو ادراک
غلام قادر جیلانی
موجودہ دور میں ہماری نوجوان نسل کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے اور ان میں نفسیاتی مسائل سب سے زیادہ پریشان کن ہیں۔ جب ہم ان مسائل پر گہرائی سے سوچتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہی نفسیاتی الجھنیں اور پریشانیاں نئی نسل میں بڑھتے منفی رجحانات اور رویوں کی اصل جڑ ہیں۔اخلاقی گراوٹ ایک بڑا عنصر ہے جو نئ نسل میں منفی تبدیلیاں لا رہی ہے نوجوانوں میں اخلاقی گراوٹ کے باعث مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی ہم آہنگی اور باہمی اعتماد ختم ہورہا ہے اس کے نتیجے میں نئ نسل میں نظم و ضبط کی کمی اور بڑوں اور بزرگوں کے لئے عزت و احترام کا فقدان پیدا ہورہا ہے ۔
والدین کے ساتھ کم وقت گزارنا نئی نسل میں کئی منفی رویوں کا سبب بن رہا ہے، جن میں جارحیت، تنہائی، عدم اعتماد اور دیگر سماجی و جذباتی مسائل شامل ہیں۔ اس کے برعکس، بچوں کے ساتھ معیاری وقت گزارنا ان کی فلاح و بہبود، جذباتی اظہار اور مضبوط رشتوں کو فروغ دیتا ہے۔
اسکول سے غیر حاضری بھی منفی رویوں میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے۔ بلا وجہ غیر حاضری کی بڑھتی ہوئی شرح استاد اور شاگرد کے رشتے میں ایک ایسا خلا پیدا کر رہی ہے جسے پورا کرنا مشکل ہے۔ اس وجہ سے، بچہ استاد کی نگرانی سے دور رہ کر اکثر اوقات غلط سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتا ہے۔
آج کل آن لائن تعلیمی نظام پر بڑھتا ہوا انحصار بھی اس مسئلے میں اضافہ کر رہا ہے۔ شاگرد استاد سے براہ راست سیکھنے کے بجائے آن لائن سیکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں، جس سے وہ اسکول جانے سے کتراتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، وہ استاد کی ذاتی تربیت اور رہنمائی سے محروم ہو جاتے ہیں، جس سے ان کی شخصیت پر منفی اثرات پڑھتے ہیں اس کے علاوہ، اسکول سے غیر حاضری کی وجہ سے بھی وہ سکولی ماحول اور اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ وقت گزارنے سے بھی محروم رہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ بہت سی سماجی اور جذباتی صلاحیتیں نہیں سیکھ پاتے۔
نوجوانوں میں اپنی ثقافت اور مادری زبان کی اہمیت سے بے خبری ان کی شناخت کو کمزور کر رہی ہے۔ یہ بے خبری ان میں خود اعتمادی کی کمی اور ایک طرح کی بیگانگی پیدا کرتی ہے، کیونکہ وہ اپنی وراثت، اپنی کمیونٹی اور جذباتی جڑوں سے اپنا گہرا تعلق کھو رہے ہیں۔ یہ دوری نوجوانوں کے رویوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے، جس کے باعث وہ نہ صرف اپنی بنیادی جڑوں سے کٹ جاتے ہیں بلکہ معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں سے بھی غافل ہو جاتے ہیں۔
مادری زبان سے دوری بچوں میں منفی رویوں کو جنم دے رہی ہے۔نئی زبانیں سیکھنا بلاشبہ ایک اچھی بات ہے، لیکن اپنی مادری زبان کو نظر انداز کرنا بچوں کی ذہنی اور تعلیمی نشوونما پر گہرے اور منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ماں اپنی زبان میں جو محبت اور اپنائیت بچے کو دے سکتی ہے، وہ کسی غیر مانوس زبان میں ممکن نہیں۔ مادری زبان میں تعلیم کے ذریعے ایک مضبوط ثقافتی تعلق قائم ہوتا ہے جو بچوں کی ذہنی اور جذباتی نشوونما میں مدد کرتا ہے۔
علاوہ ازیں، مادری زبان میں سمجھانا استاد کے لیے زیادہ آسان اور مؤثر ہوتا ہے۔ اس سے بچوں کا علمی ادراک بڑھتا ہے اور ان میں سیکھنے کی دلچسپی بھی پیدا ہوتی ہے۔ یوں، اپنی جڑوں سے جڑ کر ہی ایک صحت مند اور باشعور نسل پروان چڑھ سکتی ہے۔
آج کل کی نوجوان نسل میں رشتوں کی قدر و قیمت میں کمی دیکھی جا رہی ہے، جو انہیں منفی رویوں کا شکار بنا رہی ہے۔ رشتوں میں پیار و محبت کا فقدان سماجی تنہائی، جارحیت اور منفی سوچ کو جنم دیتا ہے۔اس کے برعکس، صحت مند اور پیار بھرے رشتے نوجوانوں کو جذباتی طور پر مضبوط بناتے ہیں اور ان میں سماجی رہن سہن کی صلاحیتیں پیدا کرتے ہیں، جو ان کی مثبت نشوونما کے لیے بہت ضروری ہیں۔ رشتوں میں پیار، محبت اور قدر کی کمی نوجوانوں میں عدم تحفظ کے احساس کو فروغ دے کر انہیں نقصان دہ اثرات کی جانب مائل کر سکتی ہے۔فضول خرچی اور پیسوں کا غیر ذمہ دارانہ استعمال بھی نوجوان نسل میں منفی رویوں کو فروغ دے رہا ہے۔ اس رویے کی وجہ سے نوجوان بے چینی اور ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں اور بعض اوقات یہ منشیات کے استعمال جیسے خطرناک رجحانات کی طرف بھی لے جاتا ہے۔ضرورت سے زیادہ خرچ اور مالی احتیاط کی کمی کے باعث وہ نہ صرف ذاتی محنت کی قدر کھو دیتے ہیں بلکہ مالی عدم تحفظ اور سماجی و نفسیاتی دباؤ کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ سب عوامل مل کر نوجوانوں کی مجموعی فلاح و بہبود اور ان کی ذاتی نشوونما پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
نئی نسل میں غیر ملکی فیشن اور ثقافت کی اندھی تقلید نے کئی منفی رویوں کو جنم دیا ہے۔ اپنی برتری ظاہر کرنے کی اس دوڑ میں نوجوان مادیت پرستی کا شکار ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی تعلیمی توجہ کم ہو رہی ہے اور وہ اپنی ثقافتی اقدار سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔یہ رجحان اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب نوجوان میڈیا اور سوشل میڈیا کے بااثر افراد کی نقل کرتے ہیں۔ اس تقلید کے باعث وہ فیشن کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اپنی مقامی روایات کی قدر کرنا چھوڑ دیتے ہیں، جو ان کی شناخت اور شخصیت پر گہرا منفی اثر ڈالتا ہے۔نوجوانوں میں پچھتاوے کا نہ ہونا اور بلا خوف و خطر غلط کاموں میں ملوث ہونا، دراصل احساسِ ذمہ داری کے فقدان کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں منفی رجحانات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ نوجوان ایسے کاموں میں اپنا قیمتی وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں جو ان کی شخصیت اور مستقبل کے لیے نقصان دہ ہیں۔ پڑھائی پر توجہ نہ دینا اور فضول سرگرمیوں میں مصروف رہنا، اور پھر اس پر کوئی پچھتاوا محسوس نہ کرنا، ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جو ان میں منفی سوچ کو فروغ دے رہا ہے۔
اگر نئی نسل اسی طرح لاپرواہی اور بے حسی کے ساتھ اپنا وقت برباد کرتی رہی تو ان میں منفی رجحانات بڑھتے رہیں گے، جو نہ صرف ان کے حال بلکہ مستقبل میں بھی کئی مشکلات اور چیلنجز کا باعث بن سکتے ہیں۔
اگر ان بڑھتے ہوئے منفی رجحانات پر قابو نہ پایا گیا تو یہ نوجوان نسل کے لیے سنگین مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ان اقدامات میں بچوں کو اخلاقی اور تہذیبی اقدار سے آشنا کرانا، والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ باہمی دلچسپی کے ساتھ وقت گزارنا، نوجوانوں کو اپنی تہذیب و تمدن اور ثقافت کی اہمیت سے آگاہ کرنا۔ رشتوں میں پیار و محبت اور قدر و منزلت کو فروغ دینا، فضول خرچی سے روکنا اور مالی ذمہ داری کا احساس دلانا۔ غیر ملکی فیشن اور ثقافت کی اندھی تقلید سے گریز کرنا شامل ہیں۔دنیا کی عظیم اور اعلیٰ شخصیات کے بارے میں واقفیت، ان کی تعلیمات اور بچوں کی اخلاقی و دینی تربیت بھی بڑھتے منفی رویوں کی روک تھام کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف روحانی اور اخلاقی اقدار کی بحالی ہو گی بلکہ نئی نسل کے مستقبل کو بھی سنوارا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں معاشرے کے ہر باشعور فرد، اساتذہ اور والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے پر اپنی پوری توجہ مرکوز کریں اور نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے منفی رجحانات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔
(مدرس گورنمنٹ ماڈل ہائیر سیکنڈری سکول زوہامہ )
[email protected]