فہم و فراست
بشارت بشیرؔ
دنیا تسلیم کر چکی ہے کہ اسلام ایک سادہ، فطری اور تبلیغی مذہب ہے۔ نوع بشر کو خالق کی دہلیز پر جھکانے کیلئے اس نے ہر دور میںصاف اور سادہ انداز میں استدلالی قوت کے ساتھ اپنی بات کہہ دی اور حکمت ودانائی کے سبھی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے چہار دانگ عالم میں اپنا ڈنکا بجادیا ۔ خاکدان عرب سے اس کام کا آغاز جس انداز سے ہوا اور صرف چند برسوں میں کیسے اس نے مظاہر فطرت اور اپنے بڑوں کو پوجنے والوں کی زندگی میں وہ حیرت انگیز انقلاب بپا کیا کہ فلک پیرا ابھی ورطۂ حیرت میںڈوبا ہوا ہے۔ دعوت کے یہی نقوش اس اُمت نے جب تک اپنائے اور ابنوہ در ابنوہ خلق خدادامن توحید میںآباد ہوتی رہی ہے۔ داعی جب تک اپنے مقام بلند سے واقف اور اپنے نازک ترین کا م سے آشنا اور مدعوکے ساتھ اپنے مشفقانہ رشتہ سے باخبر رہا ۔ زندگیاں بدلتی رہیں۔ جب تک اس کی بات ناصحانہ اور مخلصانہ رہی وہ کامیابی کے منازل طے کرتا رہا۔ جب کبھی لہجہ تحکمانہ بن گیا تو اصلاح کی ہزار کوششیں کوئی کام نہ کرسکیں۔تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ دعوت کا نبوی ؐیانہ مزاج و مشفقانہ اسلوب جب تک داعی کے سامنے رہا ۔ اس کا کام بنتا گیا اور جب وہ اپنے مدعو سے مایوس وچین بجبیں ہوا اور قرآنی الفاظ میں مواعظ حسنہ اور حکمت کے اوصاف اُس سے چھن گئے ۔ تو لچھے دار تقریریں اور طویل خطبات ووعظ فضامیں تحلیل ہوکے رہ گئے۔
اسلام کا بنیادی اصول توحید ہے اور یہی تعلیمات لے کر نبی دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی دنیا کے ہر گوشۂ زمین میں گئے۔ یوں تو وہ کسی یونیورسٹی یا دارالعلوم کے فارغ و وسند یافتہ تو تھے نہیں ۔ لیکن اُن کے دل انسانیت کی صلاح وفلاح کیلئے تڑپتے تھے ۔ وہ جس کے پاس بھی اسلام کی فطری تعلیمات لے کر گئے خلوص وایثار اور محبت ومودت سے سرشار ہوکر گئے وہ گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہ ہوئے اور نہ کوئی عطا اُنہیں اپنے مقصد سے دور رکھ سکی نتیجتاًیورپ وافریقہ جاوا وسماٹرا غرض عرب وعجم میںان پراسرار بندوں نے دعوت و تبلیغ کے میدان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئے جنہیں تاریخ بار بار دہراتی رہے گی یہی بات جارج سیل (1698-1736)کے 1734ء میں چھپنے والے ترجمہ قرآن کے پانچوں ایڈیشن کے دیباچہ میں سرایڈورڈ ڈینی سن راز(Denisonross)نے ان لفظوں میںکہی …’’محمدؐ کی تعلیمات کا بنیادی اصول توحید تھا۔ اس کی تبلیغ انہوں نے اپنے عرب معاصرین کے سامنے کی۔ جو ستاروں کو پوجتے تھے۔ اس کی تبلیغ انہوں نے ایرانیوں کے سامنے کی، جو یزدان واہر من کو مانتے تھے اس کی تبلیغ ہندوستانیوںکے سامنے کی جو بتوں کو پوجتے تھے۔ اسی کی تبلیغ ترکوں کے سامنے کی جو کسی خاص چیز کی پرستار نہ تھے۔
عقیدہ توحید کی سادگی، اسلام کی توسیع و اشاعت میں غالباً غازیوں کی تلوار سے زیادہ بڑا عامل تھا۔ ایک تعجب خیزواقعہ ہے کہ ترک جن کی مغربی یلغارناقبل مزاحمت بن گئی تھی۔ ان سب کو اسلام کے عقیدہ نے فتح کرلیا اور انہوں نے مسلم حکومتیں قائم کیں ۔ تیرہویں صدی کے منگولوںنے جب بغداد کو تاراج کیا تو انہوں نے اسلام کے آثار کو مٹانے کیلئے وہ سب کچھ کیا جو وہ کرسکتے تھے۔ اس وقت خلیفہ اسلام کو اگر چہ مصرکی تاریکی میںدھکیل دیا گیا تھا۔ منگولوں کی بنائی ہوئی حکومتیں بہت جلد مسلم ریاستوں میںتبدیل ہوگئیں۔‘‘
Introduction of George sales.
Translation of the Quran-Pvii
غرض اسلام کی سادہ اور دل میں اُترنے والی تعلیمات اپنے فروغ اور پھیلائو کیلئے ایسے داعیوں کی متلاشی رہی جو میدان دعوت کے نشیب وفراز اور حکمت کے اعلیٰ اصولوں سے وقف تھے۔داعی کی حیثیت ایک ایسے طبیب کی ہونی چاہے جو اپنے مدعوکے ہر روحانی مرض اور روگ کو دور سے بھانپ سکے۔اس کے مزاج سے واقف ہو اور اس کی وسوچ سے آگاہ ہو ہر اس موقع کی تلاش میں رہے جب مدعو اس کی بات سننے کے موڈ میں ہو۔ مدعو کبھی مشتعل ہو تو اس وقت احسن طریقے پر اُٹھے اور پھر موقع کی تلاش میں رہ کر اور اپنی بات میں مزید نرمی اور مٹھاس پیدا کرکے اس کے سامنے آئے ۔ اور حقائق وواقعات سے سمجھانے اور خود اپنے نفس میںغور کرنے کی دعوت دے۔ اخلاقی وروحانی بگاڑ کے جس دور سے آپ اور ہم گزر رہے ہیں ۔جذباتی تقریریں اصلاح کا کام نہیں دے سکتیں مدعو کے خلاف زبان درازی اُسے اور مشتعل کریں گی چاہے اس میں کتنا ہی درد وٹیسیں پوشیدہ ہی کیوں نہ ہوں بدیوں اور برائیوں کے بڑھتے سیلاب پر باندھ باندھنے کی خواہش دل میں ہو تو داعی کبھی اسے ناقابل تسخیر نہ کہے مایوس ہو کر یہ جملے اس زبان سے نہ نکلیں ۔ کہ اس قوم کی اصلاح کی ساری تدبیریں لاحاصل ہیں یا یہ بگڑا معاشرہ کبھی سنبھل سنور نہیں سکتا ۔
سیلاب بڑھ رہا ہو یا آگ پھیل رہی ہو ۔تو یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ ہم سدباب سے مایوس ہوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور بچائو کی کوئی تدبیر بھی روبہ عمل نہ لائیںیہی بات عصر حاضر کے ایک بڑے قلم کار نے ان الفاظ میں کہی ہے ۔’’ اگر ذہن ودماغ ،عقل وہوش سے بالکل ہی خالی ہیں۔ تو ہم آگ کے بھڑکنے اور پھیلنے کا تذکرہ اس بے پرواہی سے نہیں کرسکتے ،ایسے موقعے پر بے وقوف شخص بھی آگ کا قصہ لوگوں کو سنانے سے قبل فائر بریگیڈر کو فون کرے گا۔ اور جب تک وہ آئے خود آگ پر پانی ڈالے گا۔ دوسروں کو اپنا شریک بنائے گا۔ آگ پر قابو ناممکن ہو تو اردگرد کی چیزوں کو بچانے کی کاوش کرے گا پھر بھی آگ بڑھتی نظر آئے تو لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی سعی کرے گا ۔ایسا بھی ممکن نہیں تو خود اور اپنے گھروالوں کو ہی بچائے گا۔‘‘غرض ایک مسلمان کی ایک عمومی ذمہ داری ہے کہ دعوت واصلاح کے سارے کارگر علاج کر ڈلاے اور معاشرہ سے مایوس نہیں بلکہ اللہ کی رحمت کے سہارے حق بات مدھر انداز میںکہتا رہے ۔یقیناً سارے انسانوں کے دل پتھر نہیں کہ پگھل نہ جائیں ۔سلیم اور سعید الفطرت دل ضرور اثر ات قبول کرلیں گے۔
(رابطہ۔7006055300)