شہنواز نذیر
چرارِ شریف کے ایک خاموش گاؤں میں، جہاں سردیوں کی ہوا میں کانگڑی کے دھوئیں کی مخصوص مہک رچی ہوتی ہے اور اخروٹ کے درخت وادی کے بوڑھے درویشوں کی طرح سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں، ایک معمر مکینک رہتا تھا. بشیر احمد۔ اس کا گھر ایک گھماؤدار کیچڑ بھری پگڈنڈی کے آخری سرے پر تھا، شیخُ العالمؒ کے آستانے سے کچھ ہی فاصلے پر، جہاں لوگ دل کی الجھنیں لے کر آتے اور سکون لے کر لوٹتے۔
ایک جنوری کی برفیلی شام تھی۔ بشیر اپنی بوسیدہ ٹرانزسٹر ریڈیو کی مرمت میں مصروف تھا۔ اس کا بیٹا یاور بُخاری کے پاس بیٹھا کشمیری قہوہ دم دے رہا تھا اور اس کی بیوی رفیقہ لالٹین کی زرد روشنی میں پھیرن کی آستین پر کڑھائی کر رہی تھی۔
ہوا نے کھڑکیوں کو جھنجھوڑا تو بشیر بڑبڑا اُٹھا:
’’ایسی آندھی میں کون آتا ہے بھلا؟‘‘
گویا جواب میں دروازے پر زور کی دستک ہوئی۔
رفیقہ نے معنی خیز نظر سے شوہر کو دیکھا۔
’’شاید تمہارا پرانا دوست ہی ہو۔‘‘
دروازہ کھلا تو سامنے سُبیدار فاروق کھڑا تھا. بڈگام کا ایک ریٹائرڈ فوجی، جس کی داڑھی پر ابھی تک برف کی نمی لٹک رہی تھی۔ پندرہ سال ہو گئے تھے دونوں کو ایک دوسرے کو دیکھے ہوئے۔
گھر کے اندر، قہوہ کی بھاپ میں پرانی باتیں تو ہوئیں مگر فاروق کا چہرہ کسی ناگفتہ بوجھ سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے اپنے پھیرن کی جیب سے ایک چمکدار اخروٹ کا چھلکا نکالا جس پر قدیم کشمیری نقوش کندہ تھے۔
’’یہ عام اخروٹ نہیں ہے،” فاروق نے دھیمے لہجے میں کہا۔ “یہ ایک فقیر نے مجھے کپوارہ کے قریب دیا تھا۔ کہتا تھا، اس میں تین دعائیں پوری کرنے کی طاقت ہے… مگر ہر دعا اپنی پرچھائی لے کر آتی ہے۔‘‘
بشیر کا بیٹا ہنس پڑا۔ ’’ایک اور آرمی کہانی، سبیدار صاحب!‘‘
فاروق کی ہنسی واپس نہ آئی۔
’’میں نے پہلی دعا مانگی… پوری ہوئی، مگر جس طرح میں چاہتا تھا ویسے نہیں۔ دوسری دعا پر… میں نے کسی قیمتی چیز کو کھو دیا۔ میں نے اسے پھینک دیا تھا، لیکن اگلی صبح یہ پھر میری کھڑکی پر رکھا ملا۔ میں اس سے جان چھڑانا چاہتا ہوں، بشیر۔ اسے جلا دو، دفنا دو، مگر استعمال نہ کرنا۔‘‘
بشیر نے تعویذ کو دیر تک دیکھا۔
’’اور تم اسے اب دے کر کیا چاہ رہے ہو؟‘‘
’’نجات…‘‘ فاروق نے آہ بھری۔ ’’بس نجات۔‘‘
قہوہ ختم ہوا، باتیں ختم ہوئیں، اور رات کی سرد خاموشی گھر میں اتر آئی۔
یاور نے پلیٹیں لگاتے ہوئے مذاق کیا، “بہتر ہے بابا اس سے نئی گاڑی مانگ لو۔ یا پھر سری نگر میں ماڈرن ورکشاپ!”
بشیر نے ہلکی مسکراہٹ سے بات ٹال دی، مگر نہ جانے کیوں اخروٹ کا تعویذ جیب میں رکھ لیا۔
پہلی دعا
اگلی صبح یاور نے پھر چھیڑا:
’’ایک لاکھ روپے مانگ لو بابا، سارے قرض اُتر جائیں گے!‘‘
بشیر ہنسا، مگر جانے کیوں سرگوشی میں کہہ ہی دیا:
’’میں ایک لاکھ روپے چاہتا ہوں…‘‘
کچھ نہ ہوا۔
لیکن تین دن بعد، محلے کا ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا۔
’’بشیر صاحب… پامپور کے پاس حادثہ ہوا ہے… یہ یاور…!‘‘
وقت جیسے رک گیا۔
یاور کو نشے میں دھت ایک ٹرک ڈرائیور نے ٹکر ماری تھی۔ وہ اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گیا۔
ڈرائیور کے گھر والے معافی اور تلافی کے طور پر جو رقم لائے. وہ ٹھیک ایک لاکھ روپے ہے۔
رفیقہ وہ رقم دیکھ کر چیخ پڑی۔
بشیر کے ہاتھ لرزنے لگے۔ اخروٹ کا تعویذ جیب میں گرم ہونے لگا، جیسے اس کی دھڑکن سنائی دے رہی ہو۔
دوسری دعا
گھر میں ویرانی ایسے بسی جیسے سردی اخروٹ کے اندر کی گولائی کو کھوکھلا کرتی ہے۔
ایک رات، گہری برف باری کے دوران، رفیقہ نے اپنے شوہر کو جھنجھوڑ کر جگایا۔
’’تعویذ… میرے بچے کو واپس لا دو۔‘‘
’’نہیں، رفیقہ… نہیں۔‘‘
’’میں اپنے جنے ہوئے بچے سے کیا ڈروں؟’’ اس کی آواز فگار تھی۔‘‘بس ایک بار… ایک بار واپس لا دو!‘‘
بشیر نے لرزتے قدموں سے تعویذ اٹھایا، دل پھٹتا جا رہا تھا۔
اس نے بمشکل کہا:
’’میں چاہتا ہوں… میرا بیٹا یاور زندہ ہو جائے…‘‘
اچانک باہر کی ہوا نے گھر کو جھٹکا دیا. ایک عجیب، بھاری جھونکا.مگر پھر سب خاموش ہو گیا۔
رات یونہی گزر گئی۔
دستک
فجر سے کچھ پہلے… ٹھک… ٹھک… ٹھک.
دروازے پر کوئی دستک دے رہا تھا۔
آہستہ، لمبی، تھکی ہوئی… غیر انسانی سی۔
رفیقہ لپکی: ’’میرا بچہ! میرا یاور!‘‘
بشیر اس کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہوا۔
’’رفیقہ! ٹھہرو! اس آواز میں کچھ… کچھ ٹھیک نہیں!‘‘
لیکن وہ اسے دھکا دے کر آگے بڑھ گئی۔
دستک بھاری ہوتی گئی. جیسے کوئی زخمی چیز دروازے پر مکمل وزن ڈال کر کھڑی ہو۔
بشیر گھٹنوں کے بل گرا، ہاتھ قالین پر پھسلتے ہوئے تعویذ تلاش کرنے لگے۔
باہر کوئی سانس لیتا ہوا سا لگا… یا شاید سرکنے کی آواز تھی۔
جیسے ہی رفیقہ نے کنڈی آدھی کھولی، بشیر کو تعویذ ملا۔
وہ سہما ہوا پھوٹ پڑا:
’’میں چاہتا ہوں… میرا بیٹا سلامت ہو… آرام میں ہو…‘‘
دستک یکدم رک گئی۔
ایسی خاموشی چھا گئی جیسے دنیا سانس روک کر کھڑی ہو۔
رفیقہ نے دروازہ کھول دیا۔
باہر صرف سرد ہوا تھی۔
برف پر کوئی نشان نہیں. صرف ان کے اپنے قدم۔
���
زگی پورہ ، چرارشریف، بڈگام، کشمیر
موبائل نمبر؛7889820373