اُمت مسلمہ کے فکری رہنما علامہ اقبال ؒ بیسویں صدی کی ایک ایسی عبقری اور کثیر الجہات شخصیت تھے جس نے مسلم اُمہ میں ایک ایسا جوش وولولہ عطا کیا کہ جو بر صغیر ہی نہیں بلکہ ایشاء کے مختلف حصوں میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کاموجب بنا۔ علامہ کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ قدیم و جدید دونوں کا سنگم تھے اور مشرق و مغرب دونوں کے علمی و فکری سرچشموں سے پوری طرح سیراب ہوئے تھے۔ خوش قسمتی سے ابتداء ہی میں اُنہیں مشرقی علوم اور اخلاقیات کے ماہر ین کا قرب بھی حاصل ر ہا اور ایک ایسا خانوادہ ملا جس میں روح کو جسم پر اور اخلاق کو مادی اسباب پہ فوقیت دی جاتی تھی۔ انہیں جس طرح سورج کی ضیا پاشی پر یقین تھا ،اسی طرح انہیں یہ پیش بینی تھی کہ مغرب اپنے بچھائے ہوئے دام ِتز و یر میں خود اُلجھ جائے گا اور جس تاجرانہ وبے حجابانہ تمدن کو اس نے ترقی اور روشن خیالی کی علامت جتلا کر ساری دنیا پر مسلط کیاہے، وہ شاخ ِنازک پر بنا آشیانہ فنا کے گھاٹ اُتر جائے گا ، جب کہ اسلامی نظریۂ حیات سے انسانیت کو دوام اور انصاف کو راہ ملے گی۔ اس کے لئے علامہ نے اُمت مسلمہ کو پیغام دیا کہ الہیٰ انقلاب کی کامیابی کے لئے عقیدہ ٔتوحید کی بنیاد پر عملی اتحاد میں پیوستہ ہوجاؤ۔ آپ کی تاکید ہے کہ اسلام ہی مسلمانوں کی تنہا پناہ گاہ ہے ، اسی کے پُر افتخار پرچم تلے اُمت ِواحدہ کی امامت وقیادت ِ عالم ممکن ہے۔ا نہوں نے خاص طورزور دیا کہ نیک ، صالح اور پسند یدہ مسلم معاشر ے کی تعمیر میں تما م مسلمانوں کا بنیادی کر دار ہے جو احکام ِخداوندی کے آگے سر تسلیم خم کرنے اور ایک ہی مقصد زیست اور واحد منزل مراد کے گرد گھومتا ہے ۔ اس محورِ ایمان کے ارد گر د جمع ہونے والی اُمت ِواحدہ کبھی متفرقہ نہیں ہوسکتی۔ پیغمبرخد ا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی معاشرہ کو مدینہ میں ریاست کی روح میں سمو دیا ، اسی اُمت واحدہ کی برکت سے مکہ معظمہ پر فتح اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا ۔ علامہ اقبال ؒ نے اپنی سوئی ہوئی قوم کواسی پیغام کی یاد دلائی جس نے مسلمانوں کو ظلمت کدوں سے نکال کر نور اور روشنی کی طرف لایا ، جس کی جانب قرآن اور حدیث ہماری رہنمائی کر تا ہے، مگر جب سے ہم نے اُمت واحدہ ہو نے کے اس قرآنی تصور سے بغاوت اور رو گردانی کی تو منتشر بھی ہوئے اور مضمحل بھی ۔ علامہ نے واضح لفظوں میں اپنی ’’جواب شکوہ ‘‘ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ دیا ؎
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصاں بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہیں کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
افسوس کہ مسلم اُمہ عالمی سطح پر استعماری قوتوں کی بھینٹ چڑھ کر تقسیم در تقسیم اور نا اتفاقی کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں ہم مختلف ممالک میں گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں ۔بے شک شروع سے ہی اسلام دشمن قوتوں نے زہر ناک سازشوں کے تحت ہمیں براہ راست تقسیم در تقسیم کرواکر اُمت کا شیزازہ بکھیر دیا مگر اب حال یہ ہے کہ یہ شیطانی گٹھ جوڑ اپنا دجالی ریموٹ کنٹرول استعمال کر کے بلواسطہ طورایک مسلمان ملک کو دوسرے مسلمان ملک کے خلاف کاروائیاں کر نے کے لئے اُکساتا ہے اور ہم ہیں کہ ایک دوسرے کو نیچا ہی نہیںدکھا تے بلکہ ایک دوسرے کو صفحہ ٔ ہستی سے حرفِ غلط کی مٹاتے جارہے ہیں ۔ آج کی تاریخ میں عالم کفر متحد ہے مگر افسوس کہ اُمت ٹکرئے ٹکرے ہو چکی ہے کہ دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلم اُمہ پچاس سے زیادہ حصوں میں منقسم کی جا چکی ہے اور اسلامی اتحاد کے قرآنی تعلیم کے خلاف جاکر ہم سب عالمی ، ملکی ، علاقائی ،سیاسی ، مسلکی، لسانی،جغرافیائی سطح پر فرقہ بندی کے چکر میں دست وگریباں ہیں ۔ رہے نام کے مسلم حکمران ، وہ اپنے اقتدار کے لئے کسی بھی حد تک گر نے کو تیار ہوتے ہیں۔ ان ضمیرفروش اور مر دہ دل حکمرانوں نے مسلم بلاک کو اتنا نقصان پہنچا یا اور اب بھی پہنچا رہے ہیں کہ جارج بش ، اوبامہ اور ٹرمپ بھی اتنا ہمارا نقصان پہنچا نہ پا ئے۔
اقبال ؒ نے اپنی فکر کی مشعل فروزاں سے برصغیر میں قوم و ملت کو بیدار کر نے کے لئے اپنے شعروکلام میں وحدت و اتحاد کا درس بھر دیا ۔ اسلامی اتحاد کی ضرورت کے بارے میں ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اتحاد خدا کی ایسی مضبوط رسی ہے جس سے گمراہی اور تفرقہ کی ذلت سے نجات ملتی ہے، اسی میں اسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت اور کامیابی کا راز مضمر ہے۔ تفرقہ ڈالنے والوں اور اُمت مسلمہ کو ٹولیوں میں باٹنے والوں سے پیغمبر اسلام ؐسے کوئی تعلق بن ہی نہیں سکتا ۔ وحدتِ اُمت کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ قرآن کی نظر میں اختلاف اور تفرقہ مشرکوں اور کفار کا شیوہ ہے، وحدتِ اُمت کی ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کیونکہ اختلافات کے ہتھیارسے ہی باطل قوتیں اور استعماری طاقتیں مسلمانوں کو ملیامٹ کر کے رکھ دیتی ہیں ۔ا س کی ایک نمایاں مثال امریکہ جیسے دجالی ملک کی جانب سے تمام مسلم ممالک کے خلاف ہمہ گیر سازشیں اور ہمہ وقت جنگ ہے جس کے نتیجہ میں عالمی سطح پر مسلمان گاجر مولی کی طرح کہیں اپنوں ا ور کہیں غیروں کے ہاتھوں کاٹے جار ہے ہیں ۔ ا فغانستان میں آج تک کیوں لاکھوں کی تعداد میں افغان مسلمان مارے گئے ؟ شام میں مسلمانوں کو کیوں مسلسل تہ تیغ کیا جارہاہے ؟ عراق میں صدام کو ٹھکانے لگاکرا س ملک کی اب بھی اینٹ سے اینٹ کیوں بجائی جارہی ہے ؟ پاکستان کو دہشت گر دی کی لپیٹ میں لاکر ہزاروں کی تعداد میں انسانی جانیں تلف کیوں ہوئیں؟ فلسطین میں اسرائیل کی خون ریزی کو کیوں جوا ز بخشا جارہاہے ؟ مصر میں قابض جنرل سیسیی نے مرسی کی منتخبہ حکومت کا تختہ کس وجہ سے پلٹ کر آمریت کا دوبارہ احیاء کیا ؟ لیبیا میں قذافی کو تخت وتاج سے ہٹا نے کے لئے اس ملک کو جنگ وجدل میں کیوں دھکیل دیا گیا؟ جموںو کشمیر کو اپنا سلب شدہ سیاسی حق مانگنے کی پاداش میں کیوں خاک و خون میں تڑپا کر ظالم کے بجائے مظلوم کو علی الاعلان کو سا جارہاہے ؟ ا ن سارے سوالات کا جواب غیر جانب دارانہ انداز میں ڈھونڈیئے تو امریکہ اور اس کے صلیبی حواریوں کی ناپاک سوچ اورا سلام مخالف حرکات کے سوا کوئی اور چیز نظر نہ آئے گی ۔
بہرحال استعماری باطل کے نامراد چنگل سے رہائی اور نجات پانے کا راستہ صرف اسلام کی طرف پلٹ آنے اور اسلامی اتحاد میں ہی مضمر ہے۔ ہمیں آج پہلے سے زیادہ وحدت اُمت کی ضرورت ہے کیونکہ اختلافات کے سبب قومیں برباد ہو تی ہیں جیسے آج بہت سارے مسلم ممالک میں باطل طاقتوں کے ہاتھوں مظلوم اور بے قصور لوگ فوج دورفوج ہلاک کئے جا رہے ہیں۔اس کا توڑ وحدت اُمت اور اسلامی ورلڈآرڈر کو نافذ کر نے میں پوشیدہ ہے۔ دنیا میں ترقی کا راستہ ہر قوم اور معاشرے کے لئے واضح مقصد زندگی کے ساتھ ساتھ باہمی اُخوت اور وحدت سے گزر کرجاتا ہے ۔ یہ راز کسی عقل مند آدمی سے قطعی پوشدہ نہیں ۔ وہ مسلمان نادان ہے جو اپنے مقصد زند گی کی حقیقت سے نا واقف ہو، جس نے زند گی کی حقیقتوں اور مقاصد کو نہ پہچا نا ہو، جو حق اور باطل کے درمیان تمیز کر نے کااہل نہ ہو ۔ ایسے ہی مٹی کے مادھوؤں کو دجالی ، سامراجی اور طاغوتی طاقتیں اپنا شکار بنا لیا کر تی ہیں۔ وہ اس انحراف کا شکار ہو کر باطل کی طرف پیش قدم ہو جایا کرتا ہے، اس سے یہ نتیجہ بر آمد ہو تا ہے کہ دنیوی نظام کی اصل اور حقیقی بنیاد و حدت و اتحاد ہے اور تفرقہ و اختلافات ایک غیر حقیقی اور عارضی امر ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے لئے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ جا نا ، بھانت بھانت کی بولیاں بولنا اور دونفری ٹولیاں بنانا ان کے کمزور،بے اثر اور مغلوب الحال ہو نے کا ثبوت ہے ۔ واللہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی مظلومیت کے پیچھے یہی ایک راز مضمر ہے کہ ہم نے اپنا اسلامی مقصد حیات فراموش کیا اور اخوت ومحبت کے ترانوں کی مدھر آواز ہمارے دل اور گوش سماعت سے صدیوں کی دوری پر ہے۔ اگر ہم اپنا بقاء اور دوام اسلامی خطوط پر چاہتے ہیں تو ہمیںعلامہ اقبالؒ کے ان عظیم خوابوں کی تعبیر بنناہوگا جو انہوں نے قرآن اور سیرت پاکؐ کی آغوش میں عالم بیداری کی حالت میں دیکھے اور ہمیں ان کا شعور بخشا۔
9906574009