یہ 1984کی بات ہے کہ بندہ ٔناچیز اپنے دو ساتھیوں سمیت مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد یو پی حضرت مولانا مسیح اللہ خان رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات اور ان سے دینی و اصلاحی استفادے کی نیت سے حاضر خدمت ہوا۔ مدرسے کے مہمان خانہ میں ہمارے قیام و طعام کا اہتمام تھا۔ تین دن تک مہمان رہنے کے بعد مدرسے کے مطبخ میں پیسے ادا کر کے کھایا پیا جاتاتھا ۔ ہمیںدو وقت کا کھانا وہیں سے ملتا تھا لیکن چائے ناشتہ باہر دوکان پر کر تے تھے ۔ پہلے دن مہمان خانہ میں رات آرام کرکے صبح ناشتے کے بعد حضرت مولانا علیہ رحمہ کے ہاں حاضر ہوئے ۔ تعارف پہلے سے تھا کیونکہ جب حضرت مولانا پہلی بار وادی کشمیر وارد ہوئے تھے تو ترال کشمیر میں حضرت مولانا نورالدین ترالی رحمتہ اللہ علیہ کے دولت خانہ پر راقم نے بھی حاضری دی تھی اور پہلی مجلس میں نور صاحبؒ کے حکم کی تعمیل میں راقم نے بھی مولانا مسیح اللہ ؒ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی ۔ خیر مد رسہ میں راقم اپنےساتھیوں سمیت حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب کی باریابی کے لئے حاضر ہوئے تو سلیک علیک کے بعد مولانامرحوم نے ہم سے پوچھا ناشتہ کیا ؟ ہم میں سے ایک ساتھی نے جواب دیا جی ہاں ۔ حضرت مولانا نے پوچھا ' کتنا خرچہ آیا ؟ ساتھی نے کہا دس بارہ روپے۔ حضرت مولانا نے پھر پوچھا ' دس یا بارہ روپے؟ ایک ساتھی نے جواباً کہا تقریبا گیارہ روپے ۔ حضرت مولانا نے فرمایا پورا حساب کر کے بتاو۔ ہم نے آپس میں حساب کتاب جوڑ کر بتایا پونے گیارہ روپے ۔ یہ سن کر حضرت مولانا نے فرمایا ' :اب ہو ئی سچی بات ۔ اس کے بعد آپ نے کھرے سچ کے موضوع پر قرآن و حدیث کی روشنی میں وعظ و نصیحت فرمائی ۔ آج کی دنیا میں سچ اور جھوٹ کی آمیزش نے لوگوں کو مسائل کے گرداب میں غوطہ زن رکھا ہو اہے ۔ اگر سب سچ بولیں تو تمام مسائل چٹکیوں میں حل ہوں گے ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچ بولنے کی توفیق دے ۔آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔