سہیل انجم
چھبیس جون بروز پیر ہندوستان میں ذی الحجہ کی ساتویں جبکہ سعودی عرب میں آٹھویں تاریخ ہے۔ آٹھ ذی الحجہ کو یوم الترویہ کہتے ہیں۔ حجاج کرام آٹھ ہی کو منیٰ پہنچتے ہیں جہاں وہ ظہر، عصر، مغرب، عشا اور اگلے روز یعنی ۹؍ ذی الحجہ کو فجر کی نماز ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ عرفات کے لیے کوچ کرتے ہیں۔ کچھ حجاج آٹھ اور نو کی درمیان شب ہی میں عرفات کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ وہ نو ذی الحجہ کو عرفات میں ظہر اور عصر کی نمازیں بیک وقت ادا کرتے اور مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بغیر غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ نو ذی الحجہ کو عرفات میں واقع مسجد نمرہ میں حج کا خطبہ دیا جاتا اور نماز ادا کی جاتی ہے۔ جو حجاج وہاں نہیں پہنچ پاتے وہ اپنے خیموں ہی میں نماز ادا کرتے ہیں۔ مزدلفہ میں وہ مغرب اور عشا کی نمازیں ایک ساتھ ادا کرتے اور عبادت و وقوف کرتے ہیں۔ وہیں وہ شیطان کو مارنے کے لیے کنکریاں چنتے ہیں۔ دس ذی الحجہ کو نماز فجر کے بعد پھر منیٰ واپس آتے، رمی کرتے یعنی جمرہ عقبہ کو کنکری مارتے، قربانی کرتے، حلق کرواتے اور طواف زیارت کرتے ہیں۔ حلق کروانے کے بعد وہ احرام کی چادریں اتار دیتے اور حلال ہو جاتے ہیں۔ طواف زیارت اگلے روز بھی کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ حج میں اب زبردست ازدہام کے پیش نظر بہت سے حجاج گیارہ یا بارہ ذی الحجہ کو طواف زیارت کرتے ہیں۔
ترویہ کسے کہتے ہیں؟وکی پیڈیا کے مطابق ترویہ کے لغوی معنی سیراب کرنے اور پانی فراہم کرنے کے ہیں۔ قدیم زمانے میں جب حجاج آٹھ ذی الحجہ کو منیٰ جاتے تھے تو وہاں پانی نہ ہونے کی وجہ سے ان کو شدید تکلیف ہوتی تھی۔ چنانچہ منیٰ روانگی سے قبل مکہ سے آب زم زم بھر لیتے تھے۔ اسی لیے اس دن کا نام یوم الترویہ یعنی پانی بھرنے کادن پڑ گیا۔ یوم الترویہ کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے خلیل یعنی دوست حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ساتویں اور آٹھویں ذی الحجہ کی درمیانی شب میں بذریعہ خواب اپنے فرزند حضرت اسمٰیعل کو قربان کرنے کا حکم دیا تھا۔ جب وہ صبح اٹھے تو سوچ میں پڑ گئے۔ صبح سے شام تک وہ اسی سوچ میں رہے کہ کیا یہ حکم خداوندی تھا۔ یہ خواب رحمانی تھا یا شیطانی۔ اسی لیے آٹھویں ذی الحجہ کو یوم الترویہ یعنی ’’سوچ کا دن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسے یوم النقلہ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اس روز حجاج منیٰ کی طرف نقل مکانی یعنی کوچ کرتے ہیں۔ لیکن اب پانی کا کوئی مسئلہ نہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے حجاج کرام کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ جگہ جگہ طہارت خانے یا حمام بنائے جاتے ہیں۔ پینے کے پانی کا بھی وافر انتظام کیا جاتا ہے۔ منیٰ میں لاکھوں فائر پروف پرماننٹ خیمے نصب ہیں جن میں اے سی والے کولر بھی فٹ ہیں۔معلمین کی جانب سے اپنے اپنے حاجیوں کو ناشتے اور کھانے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ منیٰ کے ساتھ ساتھ عرفات میں بھی کھانا دیا جاتا ہے۔ حجاج کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر اب معلمین اپنے اپنے حاجیوں کو سات ذی الحجہ کی نماز عشا کے بعد جبکہ آٹھ ذی الحجہ کی تاریخ شروع ہو جاتی ہے، منیٰ پہنچانا شروع کر دیتے ہیں۔ صبح تک تقریباً 80 فیصد حجاج منیٰ میں خیمہ زن ہو جاتے ہیں۔
حجاج جب اپنے اپنے ہوٹلوں سے منیٰ کے لیے نکلتے ہیں تو احرام میں ہوتے ہیں اور اسی وقت سے تلبیہ پکارتے ہیں۔ وہ لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے منیٰ پہنچتے ہیں۔ وہاں لبیک کی صدائیں گونجتی رہتی ہیں۔ ایسے مواقع پر حجاج کا ذوق و شوق قابل دید ہوتا ہے۔ وہ صرف دو سفید چادروں میں ہوتے ہیں۔ پروفیسر صادقہ ذکی نے اپنے سفرنامہ میں منیٰ کو خیموں کا شہر کہا ہے۔ خیموں کا یہ شہر سال میں پانچ دنوں کے لیے آباد ہوتا ہے۔ جگہ جگہ دفاتر قائم کیے جاتے ہیں۔ ڈسپنسریاں بنائی جاتی ہیں۔ عام طو پر وہاں لوگ بھٹک جاتے ہیں۔ اسی لیے منیٰ روانہ ہونے سے قبل حجاج کو کلائیوں پر پہننے کے لیے ایک بریسلیٹ دیا جاتا ہے جس پر منیٰ میں ان کے خیمے کا پتہ درج ہوتا ہے۔ اسے ہر حاجی کو کم از کم اس وقت تک اپنی کلائی پر پہنے رہنا ہوتا ہے جب تک کہ وہ منیٰ سے واپس اپنے ہوٹل نہ چلا جائے۔ عرفات جانے کے لیے دو ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ یعنی بس اور میٹرو ٹرین۔ لیکن 300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار والی ٹرین سے زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ حجاج ہی آمد و رفت کر سکتے ہیں۔ باقی کے لیے بس ہی واحد سہارا ہے۔ منیٰ سے عرفات کی مسافت الگ الگ راستوں سے الگ الگ ہے۔ اوسطاً دس بارہ کلومیٹر۔
حجاج کی خدمت کرنا مکہ و مدینہ کے شہریوں کی گھٹی میں ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خانوادہ اپنے جد اعلیٰ ہاشم بن عبد مناف کی نسبت سے خانوادۂ ہاشمی کے نام سے معروف ہوا۔ تاریخی کتابوں کے مطابق جب بنو عبدمناف اور بنو عبدالدار کے درمیان مکہ کے انتظامات کے تعلق سے عہدوں کی تقسیم ہو گئی تو عبد مناف کی اولاد میں ہاشم ہی کو سِقایہ اور رِفادہ یعنی حجاج کرام کو پانی پلانے اور ان کی میزبانی کرنے کا منصب حاصل ہوا۔ ہاشم بڑے معزز اور مالدار تھے۔ یہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مکہ میں حاجیوں کو شوربا روٹی سان کر کھلانے کا اہتمام کیا۔ ان کا اصل نام عَمرو تھا۔ لیکن روٹی توڑ کر شوربے میں ساننے کی وجہ سے ان کو ہاشم کہا جانے لگا۔ ہاشم کے معنی ہیں توڑنے والا۔ گویا مکہ کے باشندوں کے اندر حاجیوں کی خدمت کی روایت قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔
بہر حال حجاج آج کی رات منیٰ میں گزار کر کل عرفات کے لیے روانہ ہو جائیں گے اور ’’الحج عرفہ‘‘ کو عملی شکل دیں گے۔ ۹؍ ذی الحجہ کو عرفات کی حدود میں وقوف حج کا لازمی رکن ہے۔ جس نے وہاں کچھ وقت نہیں گزارا اس کا حج نہیں ہوگا۔ عرفات میں جو بھی دعائیں کی جاتی ہیں وہ قبول ہوتی ہیں۔ وہاں گڑگڑا گڑ گڑا کر رونا اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا چاہیے۔ وادیٔ عرفات سال میں ایک روز آباد ہوتی ہے اور وہاں کی مسجد نمرہ سال میں ایک روز کے لیے کھلتی ہے۔ جس نے تمام شرائط پوری کیں اس کا حج، حج مبرور ہو گا اور وہ ایسے پاک دامن ہو جائے گا جیسے کہ اس کی ماں نے اسے ابھی جنا ہے۔ ہر حاجی کو چاہیے کہ اللہ کے حضور گڑ گڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ کرے تاکہ اس کا حج ’’حج مبرور‘‘ کا درجہ حاصل کر لے۔