ڈاکٹر آزاد ایوب بٹ
اُردو فکشن میں آنند لہر کا نام نہایت اہم اور معتبر ہے۔ انہوں نے دیگر تجربہ کار فن کاروں کی طرح اپنے فکروفن ، مطالعہ و مشاہدے اور احساسات و جذبات سے قابل قدر اضافہ کیا ہے ۔انہوں نے کئی اعلیٰ اور معیاری افسانوں کے ساتھ ساتھ ناولوں پر بھی مختلف اہم موضوعات لکھ کر اپنی بے پناہ فکری و فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا ہے۔انہوں نے ’’اگلی عید سے پہلے ‘‘1997)،’’سرحدوں کے بیچ ‘‘(2002)،’’مجھ سے کہا ہوتا‘‘ (2005)،اور ’’یہی سچ ہے‘‘(2008) جیسے عمدہ اور بے مثال ناولیں لکھے ہیں۔آنند لہر کی ان کاوشوں کو اردو ادب کے مختلف ناقدین نے کافی سراہاہے اور انہیں ایک کامیاب ناول نگار قرار دیا ہے۔اُن کی تقریباً سبھی ناول موضوعاتی اعتبار سے بھی دلچسپ ہے،اسلوب کی ندرت اور زبان وبیان کی خصوصیات کے ساتھ ساتھ فنی و فکری معیار پر بھی کھرے اُترتے ہیں۔
آنند لہر کی زیر نظر ناول ’’یہی سچ ہے ‘‘میں زندگی کے حقائق فلسفیانہ انداز میں مختلف کردار ، مکالمے اور واقعات کے ساتھ بڑے ہی موثر انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ دور میں ایسا کوئی شعبہ حیات نہیں جہاں رشوت خوری ، بے ایمانی ،چغل خوری یا استحصال کا بازار گرم نہیں ہے ،تویہ سب چیزیں اس ناول میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔حالانکہ اس ناول کے ایک اہم کردار کوشل (جج)کو اپنی ایمانداری پر کافی عبور ہوتا ہے جو کہ غلط نہیں، بلکہ اپنی اس ایمانداری کو ہر وقت،ہر لمحہ اپنی زندگی پر سوار رکھنا ، اپنی ایمانداری کا احساس دوسروں کو کراتے رہنا، دوسرے تمام لوگوں کو بے ایمان سمجھنا ،بہر حال یہ کوئی مناسب فعل نہیں ہے۔
آنند لہر کے اس ناول میں تین اہم مرکزی کردار ہیں جن کے اِردگردپوری کہانی گھومتی نظر آتی ہے۔پہلا کردار کوشل (جج)جواپنی ایمانداری پر ناز کرتا ہے ،دوسرا کردار شیو جو رشوت خور ہوتا ہے اور رشوت لے کر لوگوں کا کام انجام دیتا ہے اور تیسرا کردار شنکر ، جس کے دل میں خوف ِخدا ہوتا ہے اور رشوت لینے سے ڈر جاتا ہے ۔شنکر اور شیو رشتے میں بھائی لگتے ہیں اور یہ دونوں بھائی کوشل کے سالے لگتے ہیں ۔ان تین اہم مرکزی کرداروںکے علاوہ ان کی بیویوں ، بچوں اور دیگر ذیلی کردار مثلاًسریتا،نرملا،ساوتری ،سریش،رمیش، سدھر،ترسیم،دھرم پال، ناگپال ،شانتی،رام دیو،آشا، نیلو،ستیہ ،نلنی،وغیرہ بھی ناول میں دکھائی دیتے ہیں۔ان تمام کرداروں کو ناول نگار نے بڑے ہی فن کارانہ انداز میں اُبھارنے کی سعی کی ہے ۔ آنند لہر نے دو سگے بھائیوں شو اور شنکر کے ذریعے اس ناول میں امیری ،غریبی،پاپ،پنیہ ،سورگ،نرک کا جو تصور پیش کیا ہے اور ان دونوں بھائیوں کے مابین جو تضاد اور کشمکش ہو رہا ہے ،اس کی بھی بڑی عمدہ اور دلچسپ تصویر کشی کی ہے۔اس ناول میں آنند لہر نے ان تمام چیزوں کی عکاسی کی ہے جن سے انسانی قدریں پامال ہوئی ہیں ، سماجی رشتے ٹوٹتے ،بکھرتے ہیں اور سماج پر منفی اثرات مرتب ہوجاتے ہیں۔آنند لہر نے ان چیزوں کے اظہار میں اپنی پوری فنی صلاحیتوں کواُجاگر کیا ہے۔ناول سبک روی سے شروع ہو کر دھرے دھرے اس کے کردار ، واقعات ،مکالمے اور اظہار بیان کے لطیف احساسات و جذبات سے سرشار ہوتے ہوئے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔اس ناول کے کردار اپنی جملہ خصوصیات اور انفرادیت کے ساتھ اُبھرتے ہوئے نظر آتے ہیںاور زندگی کے حقیقی فلسفہ کو بڑے ہی موثر انداز میں بیان کرتے ہیں۔پورے ناول میں ایسے خوبصورت اور فکر و معنویت سے بھر پور مکالمے احساسات و جذبات کو اُبھارتے ہوئے حیات و کائنات کے اسرار و رموز ، درد و کرب اور آرزو و جستجو کے دروازے کشادہ کرتے ہیں۔
آنند لہر نے زندگی کے حقائق کو دیکھنے ،سمجھنے اور برتنے کا اپنا ایک منفرد انداز بنایا ہے۔وہ تخلیقی لمحوں میں اپنے کردار ،واقعات ،حادثات ، سانحات کے ذریعے اپنے داخلی و خارجی احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتے ہیںاور ساتھ ساتھ فطری تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں ۔
اس ناول کے مختلف کردار ، مکالمے اور واقعات کے سبک روی میں بھی آنند لہر نے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے۔اس ناول کا خاص کردار کوشل جو شیو اور شنکر کا بہنوی ہے،اسے اپنی ایمانداری کا اس قدر غرور ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بیٹے تک پر اپنی افسری کی شان دکھاتا ہے۔شیو اپنے بچوں کا مستقبل بنانے کے لئے رشوت لینے میں کوئی شرم یا عار محسوس نہیں کرتا اور اپنے ایک بیٹے کو ڈاکٹر ،جس کا نام سُدھر ہوتا ہے اور دوسرے کو انجینر بناتا ہے ۔یہاں تک کہ شو اپنے بیٹوں کے مستقبل کے لئے اپنی بیوی کی عصمت تک داؤ پر لگاتا ہے ۔دوسری طرف اُس کا بھائی شنکر جو رشوت لینے سے دور بھاگتا ہے اور رشوت لینا گناہ سمجھتا ہے اور اسے اپنی غریبی پر ناز ہوتا ہے۔ اس کا تصور ہے کہ دنیا میں اچھے کرم کرنے سے انسان کو سورگ ملے گا ، اس کی ایمانداری ،نیکی ،اچھائی اور شرافت کی لوگ قدر کرتے ہیں یہی اس کے لئے سب سے بڑی دولت ہے ۔ان تین مرکزی کرداروں کے بعد ان کے بچوں کی نسل سامنے آتی ہے جو بڑے ہو کر زندگی کے فلسفہ کو اپنے حساب سے سمجھنے اور چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس ناول میں زندگی کے نشیب و فراز، بدلے وقت اور حالات ،شدائد و آلام ،بے رحم ماحول کی سنگینی ، جذباتی بے کیفی ، ذات کا درد وکرب، خود غرضی اور استحصال وغیرہ جیسے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے ۔آنند لہر کا یہ ناول دور جدید کے فلسفہ زندگی کو موثر کیفیات سے ہم کنار کرنے میں کامیاب ہے۔
اس ناول کی زبان نہایت عام فہم،سہل انداز،آسان الفاط، روزمرہ محاورات تک محدود ہے۔یہ ناول سہل اور عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دامن میں رنگینی اور دلکشی لئے ہوئی ہے۔الفاظ و معانی کے اعتبار سے بھی یہ ناول بہت زیادہ صاف ،سلیس ،سادہ اور شگفتہ ہے۔یہ کتاب پروف اور ٹاپنگ کی خامیوں سے پاک ہے اور طباعت اور جلد بندی بھی عمدہ ہے۔اس ناول کے شروع میں ڈاکٹر سید احمد قادری کا ایک خوبصورت پیش لفظ بھی شامل ہے۔
ناول ’’یہی سچ ہے‘‘ دراصل زندگی کے حقائق کی بھرپور ترجمانی کرتا نظر آتا ہے اور اس عمل میں بے حد کامیاب بھی ہے ۔ اس طرح آنند لہر نے اپنی پوری فنی صلاحیتوں کا استعمال کرکے اُردو فکشن کو ایسی ناول سے نوازا ہے جس کی بازگشت دور تک اور کافی دیر تک سنائی دے گی اور اس کی یاد ہمیشہ تازہ رہے گی۔
(رابطہ۔7006729471)
[email protected]