عظمیٰ ویب ڈیسک
نئی دہلی// سپریم کورٹ نے بدھ کے روز یاسین ملک کے خلاف دو مختلف مقدمات میں ٹرائل کی منتقلی کے حوالے سے سی بی آئی کی درخواست پر شریک ملزمان کو جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل بینچ نے شریک ملزمان کو جواب داخل کرنے کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت 20 جنوری 2025 کو مقرر کی ہے۔
سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ شریک ملزمان میں سے ایک کا انتقال ہو چکا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر مقدمہ منتقل کیا جانا ہے تو تمام ملزمان کو سنا جانا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ نے اس سے قبل یاسین ملک کے خلاف اغوا اور قتل کے دو مقدمات میں جیل کے اندر ایک عارضی عدالت قائم کرنے کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ اجمل قصاب کو بھی منصفانہ ٹرائل کا موقع دیا گیا تھا۔
یہ تبصرہ اس وقت آیا جب عدالت نے سی بی آئی کی درخواست پر سماعت کی، جس میں جموں کی عدالت کے اس حکم کو چیلنج کیا گیا تھا جس میں ملک کو ٹرائل کی کارروائی میں ذاتی طور پر پیش ہونے کا کہا گیا تھا۔
گزشتہ سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ جیل میں مکمل طور پر فعال عدالت موجود ہے جہاں اگر ضرورت ہو تو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سماعت کی جا سکتی ہے، اور اس سے قبل بھی یہاں سماعتیں ہو چکی ہیں۔
ایس جی مہتا نے مزید کہا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر سی بی آئی یاسین ملک کو دہلی کی تہاڑ جیل سے جموں و کشمیر لے جانا نہیں چاہتی۔
سی بی آئی نے جموں کی ایڈیشنل سیشن کورٹ (ٹی اے ڈی اے/پوٹا) کے 20 اور 21 ستمبر کے احکامات کے خلاف اپیل دائر کی تھی، جس میں ملک کے خلاف دو مختلف مقدمات میں پروڈکشن وارنٹ جاری کیے گئے تھے۔
جموں کی عدالت نے 1989 میں چار فضائیہ کے اہلکاروں کے قتل اور مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا کے مقدمات میں گواہوں پر جرح کے لیے ملک کی ذاتی موجودگی طلب کی تھی۔ تاہم، سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت میں اس حکم پر حکم امتناع جاری کر دیا۔
اس سے قبل سالیسٹر جنرل مہتا نے یاسین ملک کی سپریم کورٹ میں موجودگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ کو خط لکھا تھا، جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ملک فرار ہو سکتا ہے، اسے زبردستی لے جایا جا سکتا ہے یا اسے قتل کیا جا سکتا ہے۔
خط میں وزارت داخلہ کے اس حکم کا حوالہ دیا گیا تھا جس کے تحت سیکشن 268 ضابطہ فوجداری کے تحت جیل حکام کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر مذکورہ قیدی کو جیل کی حدود سے باہر لانے سے روکا گیا ہے۔