عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/سابق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے منگل کو کہا کہ اگر انہوں نے بی جے پی کے ایجنڈے کی حمایت کی ہوتی تو آج وہ وزیر اعلیٰ ہوتیں، لیکن انہوں نے اپنے اصولوں پر قائم رہنے کو ترجیح دی۔انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بی جے پی نے کسی اور جماعت کو اس طرح نشانہ نہیں بنایا جس طرح پی ڈی پی کو بنایا۔ ’’انہیں ہماری طاقت اور اس مزاحمت کا علم تھا جو ہم نے مخلوط حکومت کے دوران دکھائی۔
انہوں نے کہا کہ یونین ٹیریٹری بننے سے پہلے، حتیٰ کہ عمر عبداللہ جیسے وزیر اعلیٰ بھی اہم فیصلے لے سکتے تھے اور عوام کے ساتھ کھڑے ہو سکتے تھے، لیکن اب وزیر اعلیٰ کا عہدہ صرف تبادلوں کے جھگڑوں تک محدود ہو گیا ہے۔ ’’آپ کو لیفٹیننٹ گورنر سے چھوٹے چھوٹے معاملات جیسے کون کہاں تعینات ہوگا، پر جھگڑنا پڑتا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’میرا ماننا ہے کہ حکومت میں اب بھی بہت سی طاقت باقی ہے۔ کم از کم آواز تو بلند کی جا سکتی ہے۔ لیکن جب کوئی آواز نہیں اٹھاتا تو مجھے بولنا ضروری لگتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ انہوں نے ’’پی اے جی ڈی ‘‘اسی لیے بنایا کیونکہ ریاست کے حالات اتحاد کا تقاضا کرتے تھے۔ ’’2019 کے بعد جب وقف بل آیا تو میں نے پھر اتحاد کی کوشش کی۔ ہمیں ایک مشترکہ مؤقف اپنانا چاہیے تھا تاکہ ملک کے عوام، خصوصاً اقلیتیں اور مسلمان، دیکھ سکتے کہ جموں و کشمیر کی قیادت ان کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی حمایت کے لیے تیار ہے۔‘‘
محبوبہ مفتی نے کہا، ’’لیکن افسوس کی بات ہے کہ وقف بل کے معاملے پر نیشنل کانفرنس کا کردار بہت مایوس کن تھا۔ نہ صرف انہوں نے اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے سے روکا بلکہ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ دونوں نے اس وزیر کا استقبال کیا جس نے یہ بل پیش کیا تھا، وہ بھی ٹیولپ گارڈن میں۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’اگر ہم متحد ہوتے، اور لوگ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو ایک ہی صفحے پر دیکھتے، تو اس سے بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کو حوصلہ ملتا۔محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ اگر اقتدار آپ کو اتنا کمزور اور بزدل بنا دیتا ہے، تو میرے خیال میں ایسا اقتدار رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
’’اگر بی جے پی کے ایجنڈے کی حمایت کی ہوتی تو آج وزیر اعلیٰ ہوتی: محبوبہ مفتی‘‘
