عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعہ کے روز ریاستی درجے کی بحالی کے لئے یونین ٹریٹری کے گوشہ و کنار میں گھر گھر دستخطی مہم چلانے کا اعلان کر دیا۔انہوں نے کہاوقت آگیا ہے کہ ہم دفتروں سے باہر آکر دلی کے دروازوں پر اپنی آواز بلند کریں جہاں ہمارے فیصلے کئے جاتے ہیں۔وزیر اعلیٰ نے ان باتوں کا اظہار یہاں بخشی اسٹیڈیم میں منعقدہ یوم آزادی کی تقریب سے اپنے خطاب کے دوران کیا۔
انہوں کہاپہلے ہم نے خطوط، قرار دادوں اور میٹنگوں کا استعمال کیا، ریاستی درجے کے بحالی کے لئے حمایت حاصل کرنے کے لئے ہمارا دوسرا قدم جموں وکشمیر کے ہر گائوں میں جانا ہوگا کیونکہ عدالت عظمیٰ میں 8 ہفتوں کے بعد اس پر شنوائی ہے۔
انہوں نے کہا تو آج سے میں اور میرے ساتھی نہیں بیٹھیں گے،ہم نہیں تھکیں گے، ہم ان آٹھ ہفتوں میں جموں و کشمیر کے تمام 90 اسمبلی حلقوں تک پہنچیں گے، ہر دروازے پر دستک دیں گے، اور ایک سوال پوچھیں گے: کیا آپ جموں و کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ دینا چاہتے ہیں یا نہیں۔
ان کا کہنا تھاجو دستخط نہیں کر سکیں گے ان کے انگوٹھوں کے نشانات لئے جائیں گے اور ہم جمع شدہ دستخط مرکزی حکومت اور عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کریں گے۔وزیر اعلیٰ نے کہااگر لوگ دستخط کرنے سے انکار کریں گے تو میں یہ بات تسلیم کروں گا کہ جموں و کشمیر کے لوگ موجودہ صورتحال سے مطمئن ہیں۔
انہوں نے کہامجھے امید ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ریاستی درجے کی بحالی کے مطالبے کی حمایت کریں گے۔ان کا کہنا تھا عدالت عظمیٰ نے گذشتہ روز جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کی عرضی پر مرکزی حکومت سے 8 ہفتوں میں جواب طلب کیا ہے،عدالت عظمٰی نے مشاہدہ کیا کہ زمینی حقائق، جیسا کہ پہلگام میں ہوا، کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔وزیر اعلیٰ نے ریاستی درجے کی بحالی کو پہلگام دہشت گردانہ حملے سے جوڑنے کو ’’غیر منصفانہ‘‘قرار دیا اور کہایہ لوگوں کو اس جرم کی سزا دینا ہے جو انہوں نے نہیں کیا تھا۔
انہوں نے کہاجب جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ بحال ہوگا تو پھر کیا ہماری حکومت فیصلے نہیں لے گی، کیا ہماری عدالت عظمیٰ فیصلے نہیں کرے گی، کیا ہمارے ہمسایے یا ہمارے دشمن یہ طے کریں گے کہ ہم کب ایک ریاست بن سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا جموں و کشمیر کے لوگوں جنہوں نے بڑے پیمانے پر پہلگام واقعے کی مذمت کی، کو اس واقعے سے غیر منصفانہ طور پر جوڑا جا رہا ہے۔
آپریشن سندور کو یاد کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہاجموں و کشمیر کے لوگ دہشت گردی کے خلاف مضبوطی سے کھڑے رہے ہیں اس کے باجود پہلگام حملے کو ہمیں ریاستی درجہ واپس نہ دینے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ امید کی جاتی تھی کہ یوم آزادی کے موقع پر ہمیں ریاستی درجہ واپس دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھامیرے دوست اور بہی خواہ مجھے بار بار کہتے تھے کہ اس سال کچھ بڑی تبدیلی ہوگی، اس سال جموں وکشمیر کے لئے کوئی بڑا اعلان ہوگا حالانکہ زیادہ امید نہیں تھی لیکن جب کوئی بات بار بار بولی جاتی ہے تو دل کے کسی نہ کسی کونے میں وہ بیٹھ جاتی ہے، ہم بے صبری سے انتظار کر رہے تھے کہ آج کوئی نہ کوئی اعلان ضرور ہوگا ،مجھے یہ بھی کہا گیا تھا کہ کاغذات بھی تیار کئے گئے ہیں، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہامیں بار بار روشنی کی بات کرتا تھا لیکن اب اس روشنی میں تھوڑی کمی آئی ہے تاہم میں ابھی بھی ہار ماننے والا نہیں ہوں، میں یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ جو آج صورتحال ہے وہی قائم رہے گی۔
وزیر اعلیٰ نے کہاآج میں 11 برسوں کے بعد یہاں لوگوں سے خطاب کر رہا ہوں۔انہوں نے کہاپچھلی بار جب میں یہاں کھڑا تو ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کھڑا تھا اس وقت ملک میں ہماری ایک پہچان تھی، ہمارا ایک خصوصی درجہ تھا، ہمارا اپنا جھنڈا اور آئین تھا جن میں سے آج کچھ بھی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جمہوریت کی بحالی کے لئے بھی انتظار کرنا پڑا تاہم دیر آید درست آید، آج جموں وکشمیر میں لوگوں کی منتخب سرکار ہے جس میں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔وزیر اعلیٰ نے کشتواڑ سانحے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے سوگوار کنبوں کے ساتھ تعزیت کی۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے متاثرین کو تمام تر مدد فراہم کی جائے گی۔
ریاستی درجے کی بحالی کے لئے گھر گھر دستخطی مہم چلائیں گے: عمر عبداللہ
