رام بن ضلع کے سب ڈویژنل صد مقام گول کے مضافات میں ڈکسر نامی جگہ پر زمین کھسکنے کے نتیجہ میں جن 16رہائشی مکانات کو نقصان پہنچا تھا ،اُن کی باز آباد کار ی ہونا ہنوز باقی ہے اور اس زمینی رسائو کے نتیجہ میں گول رام بن شاہرا ہ کا جو پانچ سومیٹر ڈھہ گیاتھا،اُس کوبھی تاحال بحال نہیں کیاگیا ہے ۔ابتدائی ایام میں رام بن ضلع انتظامیہ نے متاثرہ علاقہ کا دورہ کرکے بحالی و با زآبادکاری کے حوالے سے جو وعدے کئے تھے ،وہ وقت گزرنے کے ساتھ وفا نہ ہوسکے اور مسائل جوںکے توں ہیں۔زمینی سائو شروع ہونے کے تیسرے روز ضلعی حکام نے متاثرہ علاقہ کے دورہ کے دوران جہاں فوری طور بجلی کی بحالی پر زور دیا تھا وہیں شاہراہ کے متاثرہ حصہ کی فوری بحالی یقینی بنانے کا بھی اعلان کیاگیاتھا اور اُس وقت تک داڑم کے متبادل راستے سے گول کو ضلع صدر مقام سے جوڑنے کی بات کہی گئی تھی اور یہ بھی کہاگیاتھا کہ اس متبادل سڑک پر بڑی گاڑیوںکی آمدورفت یقینی بنانے کیلئے درکار انتظامات کئے جائیں گے لیکن حسب روایت سرکاری وعدے سراب ہی ثابت ہوئے اور آج تک نہ ہی بیکن نے متاثرہ شاہراہ کی بحالی یقینی بنائی اور نہ ہی متبادل شاہراہ کو بڑی گاڑیوں کی آمدورفت کے قابل بنایاگیا جس کے نتیجہ میں گول سب ڈویژن کی وسیع آبادی کو گونا گوں مسائل درپیش ہیں۔تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق اتوار کو گول بازار میں تاجروںنے احتجاج کیا کیونکہ تجارتی سامان گول نہیں پہنچ پارہا ہے جس کے نتیجہ میں جہاں بازار میں تجارتی سامان کی قلت پیدا ہونے لگی ہے وہیں اشیائے خور دونوش کے بھائو تائو کھانے لگے ہیں کیونکہ تاجروں کو کئی گنا زیادہ کرایہ دیکر چھوٹی گاڑیوں میں سامان گول پہنچانا پڑرہا ہے ۔اب تین ہفتے ہونے کو ہیں۔رام بن یا جموں سے کوئی بڑی مسافر گاڑی گول نہیں آتی ہے او ر نہ ہی بڑ ی مال بردار گاڑیاں گول پہنچ پا رہی ہیں۔ظاہر ہے کہ جب بڑی گاڑیوںکی آمد نہ ہو تو عوام کے مسائل کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کیونکہ اس صورتحال میں چھوٹی گاڑیوں کو لوگوںکو دو دو ہاتھوں سے لوٹنے کا بھرپور موقعہ ملتا ہے ۔وہی کچھ آج کل گول میں ہورہا ہے جہاں چھوٹی گاڑیاں صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھارہی ہیں اور اس کا خمیازہ عام لوگوںکو بھگتنا پڑرہاہے ۔قدرت کے سامنے انسان بے بس ہے اور نہ ہی قدرتی آفات کو روکا جاسکتا ہے ۔ڈکسر میں جو کچھ ہوا ،اُس کیلئے ہم قطعی طور انتظامیہ کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے ہیں تاہم اس آفت کے بعد انتظامیہ کا جو رسپانس ہونا چاہئے تھا ،اُس کا زمینی سطح پر فقدان نظر آرہا ہے ۔مانا کہ انتظامیہ آفت کو روک نہیں سکتی ہے لیکن یہ انتظامیہ کے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ وہ آفات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے عوامی مسائل کو نہ صرف کم سے کم کرے بلکہ اُن کا فوری ازالہ بھی یقینی بنائے۔منتخب عوامی نمائندوں سے لیکر سرکاری حکام تک جس طر ح سبھی نے ڈکسر آفت متاثرین کیلئے ہمدردی کا اظہار کرنے میں سبقت لینے کی کوشش کی ،وہ کوئی برا عمل نہیں تھا تاہم جس طرح بعد میں یہ ہمدردی کا اظہار صرف فوٹو سیشن تک محدود رہا ،وہ یقینی طورپر افسوسناک ہے ۔عوامی نمائندے ،سیاستدان یا سرکاری حکام ایسی آفات کے متاثرین کی دلجوئی کا فوٹو سیشن کریں ،اُس پر اعترا ض نہیں ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سبھی ذمہ داروں کی ذمہ داری اسی فوٹو سیشن پر ختم ہوجاتی ہے ؟۔اس کا جواب نفی میں ہی آتا ہے کیونکہ یہ سبھی لوگ اپنی جگہ پر متاثرہ عوام کی باز آبادی و بحالی یقینی بنانے کے مکلف ہیںاوراگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو اس پر افسوس ہی کیاجاسکتا ہے۔ڈکسر متاثرین میں ریڈکراس سے کچھ خیمے ،برتن ،کمبل اور چند کلو راشن تقسیم کرکے نہ ہی سرکاری مشینری اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہوئی ہے اور نہ ہی ڈی ڈی سی چیئرپرسن اس نا مکتفی امداد پر اپنے آپ کو بری الزمہ قراردے سکتی ہیں۔یہی فارمولہ سیاستدانوں پر بھی نافذ ہوتا ہے۔چونکہ گول کا یہ علاقہ حلقہ انتخاب بانہال میںآتاہے تو خوش قسمتی سے اس حلقہ سے جہاں کانگریس کے موجودہ ریاستی صدر میدان میں ہیں وہیں اپنی پارٹی کے نائب صدر بھی اسی علاقہ کی نمائندگی کرتے چلے آئے ہیں۔سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کیلئے دونوں نے متاثرہ علاقہ کے دورے تو کئے لیکن اُن دوروں کا کیا فائدہ ،جن نے متاثرہ عوام کو کوئی راحت نہ ملے ۔ظاہر ہے کہ بیانات داغنے سے کچھ بدلتا نہیں ہے بلکہ اس کیلئے عملی طور زمینی سطح پر کام کرناپڑتا ہے ۔آپ لوگ بیانات داغتے رہیں لیکن یہ بیانات اُس وقت تک بے معنی ہیں جب تک نہ متاثرین کو ان کا کوئی فائدہ ملے ۔ڈکسر متاثرین بحالی و باز آبادی کے منتظرہیں۔عوامی سطح پر ان متاثرین کی بحالی و باز آبادکاری کیلئے بہت کچھ ہوا اور بہت کچھ ہو بھی رہاہے جس کیلئے اس پسماندہ علاقہ کے لوگ واقعی تعریف کے مستحق ہیں لیکن جن لوگوںکے کندھوںپر ان متاثرین کی بحالی و بازآبادکاری کی اصل ذمہ داری ہے،ایسا لگ رہا ہے کہ و ہ تاحال اپنی ذمہ داریوںسے عہدہ بر آ نہیں ہورہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ محض بیانات جاری کرنے کے عملی طو ر ترجیحی بنیادوںپر گول رام بن روڈ بحال کی جائے تاکہ وسیع آبادی کے مشکلات کا ازالہ ہوسکے ۔اس کے ساتھ ساتھ ڈکسر متاثرین کی بحالی میں حائل رکاوٹیں دور کرکے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انہیں ایس ڈی آر ایف کے تحت معقول معائوضہ ملے اور وزیر اعظم آواس یوجنا کے تحت ان غریبوں کے آشیانے تعمیر کئے جائیں تاکہ ان کے اجڑے گھر پھر سے آباد ہوں اور وہ بھی اپنے شب و روز اپنے آشیانوںمیں گزار سکیں۔