عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے آج سیکورٹی کے تمام حصار توڑتے ہوئے خواجہ بازار نوہٹہ کے مزارِ شہداء پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔وزیر اعلیٰ کے مطابق سخت سکیورٹی رکاوٹوں، پولیس کی جانب سے راستہ روکنے اور نیشنل کانفرنس کے جھنڈے کو پھاڑنے کی مبینہ کوششوں کے باوجود، وہ تمام ممبران اسمبلی کے ہمراہ مزار شہدائے تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ پیر کی صبح تمام سکیورٹی بندشوں اور پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نوہٹہ کے تاریخی مزارِ شہداء، خواجہ بازار پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، جہاں انہوں نے فاتحہ خوانی کی۔ذرائع کے مطابق، عمر عبداللہ نے اس موقع پر نہ ہی سکیورٹی کنٹرول روم کو پیشگی اطلاع دی اور نہ ہی کسی سرکاری اجازت کا انتظار کیا۔ وہ اپنی گاڑی میں خاموشی سے روانہ ہوئے اور سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود مزارِ شہداء کے بند گیٹ کے قریب پہنچ گئے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مزارِ شہداء کا مرکزی دروازہ بند تھا، تاہم عمر عبداللہ نے دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہونے کا راستہ اختیار کیا۔ ان کے ہمراہ چند قریبی افراد بھی موجود تھے جنہوں نے اس لمحے کو کیمرے میں قید کیا۔ویڈیو میں عمر عبداللہ کو قبروں کے سامنے کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے شہداء کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے ان کی مغفرت کے لیے دعا مانگی۔
فاتحہ خوانی کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران عمر عبداللہ نے انتظامیہ اور پولیس پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو خود کو صرف سکیورٹی اور لاء اینڈ آرڈر کے نگراں کہتے ہیں، انہوں نے واضح احکامات کے تحت ہمیں فاتحہ خوانی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا:’کل صبح سے ہی تمام سیاسی قیادت کو گھروں میں بند کر دیا گیا۔ میں نے کنٹرول روم کو مطلع کیا کہ میں مزارِ شہداء پر فاتحہ پڑھنے کے لیے جانا چاہتا ہوں، لیکن چند منٹوں میں میرے گیٹ کے باہر فورسز تعینات کر دی گئیں۔‘
انہوں نے کہا کہ’درمیانی شب تک بھی سیکورٹی نہیں ہٹائی گئی۔ آج میں نے انہیں مطلع کیے بغیر چپ چاپ گاڑی میں بیٹھا اور روانہ ہوا، لیکن اس کے باوجود نوہٹہ چوک پر ہماری گاڑی کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ وہاں سی آر پی ایف کی گاڑی، جے کے پولیس کی رکشک کھڑی تھی اور پھر ہمارے ساتھ ہاتھا پائی کی کوشش بھی کی گئی۔‘عمر عبداللہ نے پولیس اہلکاروں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا:’یہ پولیس والے جو وردی پہنتے ہیں، کبھی کبھی قانون بھول جاتے ہیں؟ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کس قانون کے تحت ہمیں روکا گیا؟ اگر کوئی رکاوٹ تھی، تو وہ تیرہ جولائی تک تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا’یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ایک آزاد ملک ہے، لیکن ان کے رویے سے لگتا ہے جیسے ہم ان کے غلام ہیں۔ ہم کسی کے غلام نہیں، ہم اس ریاست کے عوام کے خادم ہیں۔‘
عمر عبداللہ نے کہا کہ فورسز نے نہ صرف انہیں روکنے کی کوشش کی بلکہ ہمارے جھنڈے پھاڑنے کی کوشش کی گئی، ہمیں پکڑنے کی کوشش کی گئی، لیکن ان کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔ ہم آئے، ہم نے فاتحہ پڑھی۔انہوں نے مزید کہا:’ان لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ شہداء کی قبریں صرف تیرہ جولائی کو موجود ہوتی ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم سال کے بارہ مہینے، جب چاہیں، ان شہداء کو یاد کریں گے۔ ہم پر کوئی پابندی نہیں چلے گی۔‘
ہم جب چاہیں شہداء کو یاد کر سکتے ہیں،ہم پر کوئی پابندی نہیں چلے گی:وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ
