عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/سی پی آئی (ایم) کے رہنما اور کولگام سے ایم ایل اے محمد یوسف تاریگامی نے کہا ہے کہ حال ہی میں مدورائی میں منعقدہ پارٹی کانگریس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ وقف ترمیمی ایکٹ اقلیتی مسلمانوں کے حقوق پر سنگین حملہ ہے۔
انہوں نے کہا، مدورائی میں ہونے والی پارٹی کانگریس کے دوران ملک بھر سے آئے مندوبین، جن میں دین سے گہرا تعلق رکھنے والے افراد، ادیب اور سیاسی و سماجی معاملات سے وابستہ افراد شامل تھے، نے متفقہ طور پر اس بات پر زور دیا کہ وقف ترمیمی ایکٹ اقلیتی مسلمانوں کے حقوق پر سنگین قدغن ہے۔
تاریگامی نے مزید کہا کہ ایسے اقدامات ملک کے جمہوری ڈھانچے اور آئینی اقدار کے لیے خطرہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے وہاں یہی بات اجاگر کی۔ ایسے اقدامات سے ملک کا جمہوری تانا بانا اور آئینی ڈھانچہ کمزور ہو رہا ہے۔
سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سی پی آئی (ایم) کے رہنما نے سول سوسائٹی، اراکین پارلیمنٹ، قانون سازوں، ادیبوں اور میڈیا سے اپیل کی کہ وہ آواز بلند کریں۔ چاہے وہ اقلیتوں پر حملہ ہو، جمہوریت پر، اداروں پر یا آئینی حقوق پر—کسی کو معلوم نہیں اگلا نشانہ کیا بنے گا۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، آواز بلند کرنی ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ حالیہ اسمبلی اجلاس کے دوران متعدد معزز اراکین نے اس مسئلے پر بحث کا مطالبہ کیا۔ ہمارے لیے یہ سوال اٹھانا مناسب تھا، کیونکہ یہ جموں و کشمیر اور پورے ملک کے عوام سے گہرا تعلق رکھتا ہے، مگر افسوس کہ بحث کی اجازت نہیں دی گئی، حالانکہ ہونی چاہیے تھی۔ میں نے یہ بات اسمبلی میں بھی کہی۔
دیگر اہم مسائل کا ذکر کرتے ہوئے تاریگامی نے کہا، جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے، پارٹی کانگریس نے متفقہ طور پر قراردادیں منظور کیں جن میں کیجول لیبر، ڈیلی ویجرز، نیڈ بیسڈ ورکرز، آنگن واڑی ورکرز، ہیلپرز اور آشا ورکرز کے مسائل شامل تھے۔ یہ محنت کش آج بھی دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔ مرکزی حکومت نے بارہا یقین دہانی کرائی کہ ڈیلی ویج اور نیڈ بیسڈ اسکیموں کے تحت کام کرنے والوں کو کم از کم اجرت دی جائے گی، مگر زمینی حقیقت مختلف ہے۔
پارٹی کانگریس کی ایک اور قرارداد میں سی پی آئی (ایم) نے مرکز سے مطالبہ کیا کہ جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ بحال کیا جائے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ آرٹیکل 370 اور 35A کی غیر آئینی منسوخی سے ریاست کو تقسیم کرکے یونین ٹیریٹریز میں تبدیل کیا گیا، جس سے ایک گہرا سیاسی خلاء اور عوام میں بے یقینی اور بیگانگی کا احساس پیدا ہوا۔
قرارداد میں کہا گیا کہ بی جے پی حکومت کے جابرانہ اقدامات کے باوجود، لوگ سات سال بعد منعقدہ اسمبلی انتخابات میں بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلے اور مرکزی حکومت کے خلاف فیصلہ سنایا۔ مگر مرکز نے اس جمہوری فیصلے کو مسلسل نظر انداز کیا۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ریاست کا مکمل درجہ بحال کیا جائے، زمین اور روزگار کے حقوق کو تحفظ دیا جائے، جمہوری، شہری اور ٹریڈ یونین حقوق کو بحال کیا جائے، سیاسی قیدیوں اور صحافیوں کو رہا کیا جائے اور نوجوانوں کی بلاجواز گرفتاریوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔
وقف (ترمیمی) ایکٹ مسلمانوں کے حقوق پر حملہ : تاریگامی
