عظمیٰ ویب ڈیسک
نئی دہلی// جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے یونین ٹیریٹری میں دوہری حکمرانی کے نظام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے “نقصان دہ ماڈل” قرار دیا اور مرکز سے مطالبہ کیا کہ ریاست کا درجہ جلد از جلد بحال کیا جائے۔
اکتوبر میں عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں عمر عبداللہ نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کا درجہ بحال کرنے کا وعدہ پورا ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا، “کسی بھی جگہ پر دو طاقت کے مراکز نقصان دہ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی تنظیم یا ادارہ متعدد رہنماؤں کے ساتھ بہتر کام نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ٹیم کا ایک کپتان ہوتا ہے، دو نہیں۔ اسی طرح حکومت میں بھی دو وزرائے اعظم یا دو طاقت کے مراکز نہیں ہو سکتے”۔
عبداللہ نے دہلی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر کے درمیان اختیارات کی تقسیم تلخ تجربہ ثابت ہوا ہے، جبکہ جموں و کشمیر جیسا بڑا اور حساس خطہ یکجہتی قیادت کا متقاضی ہے۔
انہوں نے کہا، “یونین ٹیریٹری کے طور پر دو ماہ کے دوران میں نے جموں و کشمیر کو کسی قسم کا فائدہ حاصل کرتے نہیں دیکھا۔ حکمرانی یا ترقی کے میدان میں کوئی نمایاں مثال نہیں ہے”۔
یاد رہے کہ اگست 2019 میں آئین کی دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد جموں و کشمیر کو ریاست سے یونین ٹیریٹری میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال انتخابات کے انعقاد اور ریاست کا درجہ بحال کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن بحالی کے لیے کوئی حتمی وقت مقرر نہیں کیا گیا۔
ستمبر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے 90 میں سے 41 نشستیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کی، جبکہ ان کی اتحادی کانگریس نے 6 نشستیں حاصل کیں اور بی جے پی 28 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ انتخابات سپریم کورٹ کی مداخلت کی وجہ سے ممکن ہو سکے، لیکن ریاستی درجہ کی بحالی کے معاملے پر عدالت کا رویہ غیر واضح رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مرکز نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ریاست کا درجہ بغیر کسی شرط کے بحال کیا جائے گا اور اس وعدے کو پورا کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ریاستی درجہ بحال کرنے کا حتمی فیصلہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ہاتھ میں ہے۔
انہوں نے کہا، “یہ فیصلہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو کرنا ہے کہ یہ کب اور کیسے ہوگا”۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ موجودہ حکومتی ڈھانچہ ایک “سیکھنے کا عمل” ہے اور منتخب نمائندے اور انتظامیہ ایک مشکل تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا قانون و امن و امان اور پولیس کے معاملات سنبھالتے ہیں، جبکہ دیگر امور منتخب حکومت کے سپرد ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی نظام کو مؤثر بنانے کے لیے کاروباری قوانین پر نظرثانی جاری ہے، تاکہ اختیارات کے دائرہ کار کو واضح کیا جا سکے اور عوام کو بہتر حکمرانی فراہم کی جا سکے۔