تافاعظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفےٰ کمال نے وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ایکٹ کو سرے سے ہی کالعدم قرار دیا جانا چاہئے۔انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مسلمانوں نے من جملہ اس ایکٹ کی مخالفت کی ہے اور اس کے اطلاق کو یکسر مسترد کیا ہے۔ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے تمام اپوزیشن ممبران نے بھی اس ایکٹ کی تمام شقوں کی مخالفت کی ہے اور اس کے اطلاق کو ملک کے سیکولر کردار کے منافی قرار دیا ہے لیکن بدقسمتی سے حکومت نے اپوزیشن ممبران کی سفارشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایکٹ کو پارلیمنٹ میں پاس کردیا۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ سپریم کورٹ نے اس ایکٹ کی کچھ شقوں پر روک لگائی ہے لیکن پورے ایکٹ پر روک لگانے سے انکار کیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ وقف بورڈ میں تین سے زیادہ غیر مسلم رکن نہیں ہونے چاہیئں اور جہاں تک ممکن ہو بورڈ کا سی ای او مسلم ہونا چاہیے۔ جب کسی اور مذہبی بورڈ پر اُن کے مذہب کے باہر کے رکن نہیں ہوسکتے تو مسلمانوں کے معاملات میں مداخلت کیوں کی جارہی ہے اور 3 غیر مسلم اراکین کو بورڈ میں رکھنے کی اجازت دی جارہی ہے؟ مسلمانوں کیساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیوں رکھا جارہاہے؟
ڈاکٹر کمال نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے بھی اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور ہمارے وکلاء نے بھی اس ایکٹ کے خلاف اپنے دلائل پیش کئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے قانونی ماہرین کی ٹیم سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے پر تبادلہ خیالات کرے گی اور مستقبل کے لائحہ کے بارے میں فیصلہ کر ے گی۔
وقف ترمیمی قانون کو یکسر کالعدم قرار دیا جانا لازمی: ڈاکٹر مصطفےٰ کمال
