عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر//لداخ میں حالیہ پرتشدد مظاہروں کے بعد خطے کے سیاحتی شعبے پر گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ وہ خطہ ہے جو ہمیشہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے پرکشش مقام رہا ہے، جہاں سال بھر سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔
ٹور اینڈ ٹریول سے وابستہ عہدیداروں کے مطابق لداخ میں پیش آئے پرتشدد مظاہروں نے سیاحوں کا اعتماد متزلزل کر دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جس دن یہ واقعات پیش آئے، اُسی دن سے بڑی تعداد میں سیاحوں نے اپنی بکنگ منسوخ کرنا شروع کر دی۔ سری نگر کے ایک معروف ٹور آپریٹر رؤف ترمبو نے بتایا کہ وسط اکتوبر سے وسط نومبر تک کی تمام بکنگز منسوخ ہو چکی ہیں۔ ان کے بقول:’پہلگام حملے نے پہلے ہی ہماری کمر توڑ دی تھی، اور اب لداخ کی بکنگ منسوخ ہونے سے رہی سہی کسر پوری ہو گئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ عام طور پر سری نگر سے لداخ اور لداخ سے سری نگر جانے والے سیاحوں کا ایک سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا تھا، لیکن حالیہ واقعات نے اس تسلسل کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو سیاحتی شعبے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
رؤف ترمبو کے مطابق وادی میں اس وقت ہوٹلوں کے بیشتر کمرے خالی پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ہوٹل ایسے ہیں جن میں 100 کمرے ہیں، لیکن ان میں صرف 4 کمرے بُک ہوئے ہیں، باقی سب خالی ہیں۔ ان کے مطابق سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے 50 سے 60 فیصد رعایت بھی دی گئی، لیکن یہ حکمت عملی بھی ناکام ثابت ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ: ’ماضی میں موسم سرما کے تین ماہ سیاحتی کاروبار کے لیے سنہری موقع ہوتے تھے۔ پوجا اور دیوالی کی چھٹیوں پر یہاں ہوٹل مکمل طور پر بُک رہتے تھے۔ لیکن پہلگام حملے کے بعد سے یہ سلسلہ ٹوٹ چکا ہے اور اب لداخ میں بدامنی نے ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔‘
سیاحتی شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق پہلگام حملے نے پہلے ہی کشمیری سیاحت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ غیر ملکی سیاحوں نے اپنی پہلے سے طے شدہ یاترا منسوخ کر دی تھی جبکہ ملکی سطح پر بھی بڑی تعداد میں لوگ واپس پلٹ گئے تھے۔ اس کے بعد کشمیری ٹور آپریٹرز نے امید باندھی تھی کہ لداخ کا موسم خزاں اور پھر موسم سرما کے سیاحتی سیزن سے کچھ نقصان پورا ہو سکے گا۔ تاہم لہیہ میں پیش آئے پرتشدد مظاہروں نے ان امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیا ہے۔
یو این آئی نے جب اس حوالے سے لداخ میں قائم چند معروف ہوٹل مالکان سے رابطہ قائم کیا تو ان کا کہنا تھا کہ فی الحال کوئی خاص اثر دیکھنے کو نہیں مل رہا اور یہاں سیاح آ رہے ہیں۔ تاہم ٹور آپریٹرز کا کہنا ہے کہ بکنگ منسوخی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، اور جو سیاح موجود ہیں وہ بھی طویل قیام کے بجائے مختصر قیام کو ترجیح دے رہے ہیں۔
لداخ اور کشمیر کے سیاحتی کاروبار میں براہ راست لاکھوں افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے۔ ہوٹل مالکان، گیسٹ ہاؤسز، ہاؤس بوٹس، مقامی گائیڈز، ڈرائیورز اور دیگر چھوٹے کاروباری طبقے کا انحصار سیاحوں پر ہے۔
رؤف ترمبو کے مطابق: ’اس وقت وادی میں صرف پانچ سے سات فیصد سیاح ہی آ رہے ہیں جبکہ ماضی میں یہی تعداد 80 سے 90 فیصد تک ہوتی تھی۔‘
سیاحتی صنعت سے وابستہ افراد کا ماننا ہے کہ اگر آنے والے دنوں میں حالات بہتر نہ ہوئے تو اس سال کا سردیوں کا سیزن بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ روایتی طور پر جنوری اور فروری میں گلمرگ اور سونہ مرگ جیسے مقامات پر ملکی اور غیر ملکی سیاح برف باری کا لطف اٹھانے کے لیے آتے ہیں، لیکن اگر موجودہ صورتحال نے طول پکڑا تو بکنگ کی شرح مزید کم ہو سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق لداخ اور کشمیر دونوں خطوں کی معیشت کا ایک بڑا حصہ سیاحت پر منحصر ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر مرکز اور مقامی انتظامیہ نے بروقت اقدامات نہیں کیے تو نہ صرف سیاحت بلکہ روزگار اور معیشت کے دیگر شعبے بھی منفی اثرات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
پہلگام حملہ اور لداخ کی موجودہ صورتحال اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ امن و سکون کسی بھی سیاحتی صنعت کے لیے بنیادی شرط ہے۔ جب تک حالات پُرامن اور سازگار نہیں ہوں گے، سیاح اپنی منصوبہ بندی پر نظرثانی کرتے رہیں گے۔ سیاحتی صنعت سے وابستہ افراد نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر اعتماد بحالی کے اقدامات کرے تاکہ آنے والے دنوں میں وادی اور لداخ کی معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔
لداخ میں حالیہ صورتحال کے بعد سیاحتی شعبے پر منفی اثرات مرتب
