عظمیٰ
نئی دہلی/عدالت ِ عظمیٰ نےجموں و کشمیر کے ضلع کپواڑہ میں جوائنٹ انٹروگیشن سینٹر (JIC) میں حراست کے دوران مبینہ تشدد کا شکار ہونے والے پولیس کانسٹیبل خورشید احمد چوہان کے حق میں بڑا فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے سی بی آئی کو واقعے کی مکمل تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے اور ذمہ دار پولیس اہلکاروں کی فوری گرفتاری کے احکامات دیے ہیں۔عدالت نے یو ٹی انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ متاثرہ پولیس اہلکار کو 50 لاکھ روپے بطور معاوضہ ادا کرےتاکہ اس کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا ازالہ کیا جا سکے۔
جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس سندیپ مہتا پر مشتمل بنچ نے یہ فیصلہ سناتے ہوئے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جس میں متاثرہ پر دفعہ 309 آئی پی سی (خودکشی کی کوشش) کے تحت درج ایف آئی آر کو خارج کرنے سے انکار کیا گیا تھا۔
اپیل کنندہ نے الزام لگایا تھا کہ 20 سے 26 فروری 2023 کے درمیان انہیں JIC کپواڑہ میں غیر قانونی طور پر چھ دن تک حراست میں رکھا گیا، جہاں ان پر غیر انسانی اور ذلت آمیز تشدد کیا گیا، جس میں ان کے خفیہ اعضا کو شدید چوٹیں آئی ہیں۔
عدالت نے ایف آئی آر کو منسوخ قرار دیا اورکہا کہ اس مقدمے کو جاری رکھنا انصاف کا مذاق ہوگا۔ عدالت نے حراستی تشدد کی شدید مذمت کی اور سی بی آئی کو حکم دیا کہ وہ نہ صرف تشدد کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کی نشاندہی کرے بلکہ JIC کپواڑہ میں موجود ’’نظامی خرابیوں‘‘اور ’’ادارتی کمزوریوں‘‘کی بھی مکمل تحقیقات کرے۔سپریم کورٹ نے مزید ہدایت کی کہ ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو ایک ماہ کے اندر گرفتار کیا جائے اور ایف آئی آر درج ہونے کے بعد تین ماہ کے اندر تحقیقات مکمل کی جائے۔
عدالت عظمیٰ نے حراستی تشدد کے شکار جموں و کشمیر پولیس اہلکار کو 50 لاکھ روپے معاوضہ دینے اور سی بی آئی تحقیقات کا حکم دیا
