ویب ڈیسک
نئی دہلی// سپریم کورٹ نے جمعرات کو اپنے 2018 کے ایک فیصلے کو مسترد کر دیا جس میں دیوانی اور فوجداری مقدمات میں عدالتوں کے عبوری حکم امتناعی کی مدت کو چھ ماہ تک محدود کرتے ہوئے کہا کہ عبوری اسٹے کو چھ ماہ تک محدود رکھا جائے، اس کے بعد خود کار طریقے سے ختم کرنے سے متعلق ہدایات نہیں دی جا سکتیں۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس ابھے ایس اوکا، جسٹس جے بی پرڈیوالہ ، جسٹس پنکج مٹھل اور جسٹس منوج مشرا کی آئینی بنچ نے الہ آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر کی طرف سے دائر نظرثانی کی درخواستوں پر اپنا فیصلہ سنایا۔
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے چھ ماہ کے بعد خود بخود اسٹے کو ہٹانے کی ہدایت نہیں کر سکتی۔
بنچ نے کہا- ”آئینی عدالتوں کو کسی بھی عدالت میں زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کے لیے وقت کی کوئی حد مقرر نہیں کرنی چاہیے۔“
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ متعلقہ عدالتیں زمینی سطح کی صورتحال کو بہتر طور پر سمجھتی ہیں، جو کسی خاص کیس کو ترجیح دینے کا فیصلہ کرسکتی ہیں۔
آئینی بنچ نے کہا کہ وہ 2018 کے ‘ایشین ری سرفیسنگ کیس’ میں تین رکنی بنچ کے فیصلے سے متفق نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے متعلقہ فریقین کے دلائل سننے کے بعد 13 دسمبر 2023 کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ یکم دسمبر 2023 کو آئینی بنچ نے تین رکنی بنچ (ایشین ری سرفیسنگ کیس) کے 2018 کے فیصلے پر اعتراض کیا تھا۔
اس پر عدالت عظمیٰ کی تین رکنی بنچ نے اپنے 2018 کے فیصلے میں کہا تھا کہ دیوانی اور فوجداری مقدمات میں نچلی عدالتوں یا ہائی کورٹس کا عبوری حکم امتناعی چھ ماہ بعد خود بخود ختم ہو جائے گا جب تک کہ اس میں خصوصی طور پر توسیع نہ کی جائے۔