عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/ جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے ریاستی درجہ کو عوام کا آئینی حق قرار دیتے ہوئے مرکز کی طرف سے مجوزہ ‘ہائبرڈ سسٹم’ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ایسا نظام نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے۔
عمر عبداللہ نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اس نظام کی حمایت کر رہے ہیں، وہ پہلگام واقعے اور وادی میں پھیلتی ہوئی عسکریت پسندی پر خاموش کیوں ہیں؟ انہوں نے کہا، “جب میں نے جنوری 2015 میں اقتدار چھوڑا، اُس وقت ہم نے عسکریت پسندی کو صرف دو یا ڈھائی اضلاع تک محدود کر دیا تھا۔ آج، کشمیر کے شاید ہی کوئی ضلع اور جموں کے بھی کئی علاقے عسکریت پسندی سے محفوظ ہیں۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ سارا پھیلاؤ اُس وقت ہوا جب جموں و کشمیر ایک یونین ٹیریٹری کے طور پر مرکز کے کنٹرول میں تھا، نہ کہ کسی منتخب حکومت کے تحت۔ “منتخب حکومتوں نے سیکیورٹی کی صورتحال بہتر طریقے سے سنبھالی ہے۔
عمر عبداللہ نے کہا، ہم نے ماضی میں بخوبی انتظام کیا ہے اور مستقبل میں بھی کر سکتے ہیں۔ یہ ہائبرڈ سسٹم ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔انہوں نے یونین ٹیریٹری کے ماڈل پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر یہ نظام واقعی بہتر ہے تو اسے صرف چند علاقوں تک محدود کیوں رکھا گیا ہے؟ “اگر یہ بہترین طرزِ حکمرانی ہے تو اسے اترپردیش، مہاراشٹرا، چھتیس گڑھ، شمال مشرقی ریاستوں اور مدھیہ پردیش میں بھی نافذ کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2019 کے بعد اگرچہ جموں و کشمیر کا رقبہ کم ہوا ہے، لیکن آبادی تقریباً وہی ہے، جس کی وجہ سے موجودہ طرزِ حکمرانی ناکافی اور غیر مؤثر ہے۔ عمر کا کہنا تھا یہ ماڈل کام نہیں کرتا۔
انہوں نے موجودہ دوہرے اقتدار کے نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے غیر مؤثر اور غیر شفاف قرار دیا، اور کہا کہ جب اقتدار کا واضح مرکز نہ ہو تو جوابدہی اور مؤثریت دونوں متاثر ہوتی ہیں۔ تاہم، انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ مرکز کے ساتھ جاری بات چیت جلد کسی نتیجے پر پہنچے گی تاکہ گورننس کے موجودہ چیلنجز اور زیر التوا قوانین کا حل نکل سکے۔
ریاستی درجہ ہمارا حق ، جموں کشمیر میں یوٹی نظام ناقابل قبول:عمر عبداللہ
