عظمیٰ ویب ڈیسک
نئی دہلی/سپریم کورٹ نے منگل کے روز وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی مزید 13 درخواستوں پر سماعت سے انکار کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ وہ مزید درخواستوں کو شامل نہیں کرے گی کیونکہ ان کی تعداد بڑھنے سے انہیں سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار پر مشتمل بینچ نے درخواست گزاروں کے وکلا کی اپیل پر کہاہم اب درخواستوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کریں گے یہ مسلسل بڑھتی جائیں گی اور سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔عدالت نے فیروز اقبال خان، عمران پرتاپ گڑھی، شیخ منیر احمد اور مسلم ایڈووکیٹس ایسوسی ایشن سمیت دیگر درخواست گزاروں سے کہا کہ اگر ان کے پاس چیلنج کرنے کے لیے اضافی نکات ہیں تو وہ زیر سماعت مرکزی درخواستوں میں مداخلت کی درخواست دائر کریں۔
چیف جسٹس نے کہاہم سب کو سنیں گے… پانچ مقدمات رجسٹر ہو چکے ہیں۔ اگر آپ اضافی نکات پر بحث کرنا چاہتے ہیں تو مداخلت کی درخواست دائر کریں۔بینچ نے پیر کو بھی اسی نوعیت کا حکم دیا تھا اور درخواست گزار سید علی اکبر کے وکیل سے کہا تھا کہ وہ زیر التوا پانچ مقدمات میں مداخلتی درخواست دائر کریں، جو 5 مئی کو عبوری احکامات کے لیے سنے جائیں گے۔17 اپریل کو عدالت نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ صرف پانچ مقدمات کی سماعت کرے گی اور کیس کا عنوان دیاان ری: وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025۔
کل 72 درخواستیں دائر کی گئی ہیں، جن میں AIMIM کے رہنما اسد الدین اویسی، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، جمعیۃ علماء ہند، ڈی ایم کے اور کانگریس کے ایم پی عمران پرتاپ گڑھی اور محمد جاوید شامل ہیں۔ ان درخواستوں میں وقف قانون کو چیلنج کیا گیا ہے۔
عدالت نے تین وکلا کو نوڈل وکیل مقرر کرتے ہوئے کہا کہ وہ باہمی مشاورت سے طے کریں کہ کون دلائل دے گا۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ درخواست گزاروں کو حکومت کے جواب کی نقل ملنے کے بعد پانچ دن کے اندر اپنے جوابی دلائل جمع کرانے ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہاہم واضح کرتے ہیں کہ اگلی سماعت 5 مئی میں ابتدائی اعتراضات اور عبوری حکم پر غور کیا جائے گا۔مرکزی حکومت نے 17 اپریل کو عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ 5 مئی تک کسی بھی وقف پراپرٹی کو ڈی نوٹیفائی نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی مرکزی وقف کونسل یا بورڈز میں کوئی تقرری کی جائے گی۔
یہ یقین دہانی سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بینچ کو اس وقت کرائی جب انہوں نے کہا کہ وقف قانون پارلیمنٹ میں مکمل غور و خوض کے بعد منظور ہوا ہے، لہٰذا حکومت کو سنے بغیر اس پر حکم امتناعی جاری نہیں کیا جانا چاہیے۔
بعد ازاں، اقلیتی امور کی وزارت نے 1,332 صفحات پر مشتمل ابتدائی حلف نامہ داخل کرتے ہوئے ترمیم شدہ وقف ایکٹ کا دفاع کیا اور عدالت سے اپیل کی کہ اس آئینی قانون پر کوئی ’’جامع حکم امتناعی‘‘جاری نہ کرے۔
وزارت نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ قانون کے خلاف دائر درخواستوں کو خارج کرے کیونکہ ان میں بعض دفعات کے متعلق ’’شر انگیز اور جھوٹا بیانیہ‘‘پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ ایکٹ حال ہی میں نافذ ہوا ہے، جسے صدر دروپدی مرمو نے 5 اپریل کو منظوری دی، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں شدید بحث کے بعد۔ راجیہ سبھا میں 128 ارکان نے اس کے حق میں اور 95 نے مخالفت میں ووٹ دیا، جبکہ لوک سبھا میں 288 ارکان نے حمایت اور 232 نے مخالفت کی۔
عدالت عظمیٰ کا وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف نئی درخواستوں پر سماعت سے انکار
