نیوز ڈیسک
سرینگر // پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن جموں و کشمیر کی جانب سے سرینگر کے ایک نجی اسکول میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران بھارت شکشا بورڈ کے چیئرمین، ڈاکٹر نگندر پرساد سنگھ (آئی اے ایس) نے کہا کہ صدیوں پہلے مرتب کی گئی تعلیمی پالیسی نے بھارت کے ساتھ ایک بڑی ناانصافی کی۔
اُن کے مطابق اس پالیسی کے ذریعے لوگوں کو تقسیم کرنے اور باہمی اختلافات کو ہوا دینے کا کام لیا گیا۔انہوں نے کہا،ہم نے آج تک وہی نظام اپنایا ہے جو انگریزوں نے دیا تھا، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس نظام میں تبدیلی لائیں۔ ہماری کوشش ہے کہ بچوں کو ذات پات، فرقہ واریت اور تفریق پر مبنی تعلیم کے بجائے ایسی تعلیم دی جائے جو سماج کو جوڑنے والی ہو۔
’’ڈاکٹر نگندر پرساد سنگھ نے مزید کہا کہ اب ہر زبان کو عزت دی جائے گی اور تمام زبانوں کو نصاب میں شامل کیا جائے گا تاکہ طلبہ ہم آہنگی اور یکجہتی کے ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔اس موقع پر انہوں نے نجی اسکولوں کو دعوت عام دیتے ہوئے کہا کہ وہ نیشنل بورڈ کے ساتھ جڑجائیںاور اپنے لئے آسانیاں پیدا کریں۔اِس تقریب کا انعقاد کریسچن انٹرنیشنل اسکول درگاہ حضرت بل میں کیا گیا۔
اس موقع پر کئی نجی اسکولوں نے جموں و کشمیر بورڈ کو چھوڑ کر بھارتی شکشا بورڈ سے منسلک ہونے کا عندیہ دیا۔ جموں و کشمیر پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کے صدر، جی این وار نے اپنی تقریر میں کہا کہ جموں و کشمیر میں نجی اسکولوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔ ان کے بقول، مختلف اقسام کی این او سیز (No Objection Certificates) کا تقاضا کر کے اداروں کو غیر ضروری طور پر تنگ کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہی ادارے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ہم سرکاری پالیسیوں سے سخت نالاں ہیں۔ جن اداروں نے یہاں تعلیمی میدان میں مثبت کردار ادا کیا، انہیں بلا وجہ نشانہ بنا کر ان کے تعلیمی مشن کو ناکام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ واڑ نے کہا کہ ہماری فائلیں برسوں سے کئی دفاتر کی دھول چاٹ رہی ہیں اور جموں وکشمیر بورڈ کی گنڈا گردی یہ ہے کہ ہمیں ایسی بلیں اور فیس ادا کرنی پڑھتی ہے جس کو ہم ادا کر ہی نہیں سکتے ہیں اور اگر ہم یہ فیس ادا کریں گے تو ہمیں والدین کے جیب کاٹنے پڑھیں گے جو ہمارے لئے نامنظور ہے ۔اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ جموں و کشمیر بورڈ سے علیحدہ ہو کر قومی سطح کے تعلیمی بورڈ سے وابستہ ہوں۔اس سلسلے میں ہماری کئی ایک بورڈ سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں ۔
ڈاکٹر بی ایس مورتی ڈائریکٹرآئی آئی ٹی حیدرآباد نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کے والدین جب اپنے بچوں کو IIT جیسے اداروں میں داخل کراتے ہیں تو ان کا پہلا سوال ہوتا ہے کہ چار سال بعد ان کے بچے کی تنخواہ کیا ہوگی۔‘‘ انہوں نے اس رویے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کو صرف معاشی فائدے کے بجائے سیکھنے اور ملک کی بہتری میں کردار ادا کرنے کے جذبے سے تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ احساسِ ملک دوستی اور قربانی, سکول کی سطح سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو اسی جذبے سے تربیت دینی ہے تاکہ وہ نہ صرف کامیاب انسان بنیں بلکہ ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کریں۔‘‘
چیئرمین منی انٹرنیشنل اسکول کے چیئرمین اشوک کمار نے کہا کہ ملک میں بچوں کو ایسی تعلیم دینی ہے جس سے وہ اچھے انسان بن سکیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں سوچنا ہے کہ کون بڑا اور کون چھوٹا اسکول چلا رہا ہے بلکہ اس چیز پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ بچے کو جو بھی تعلیم ملے وہ اچھے برے کی تمیز سکھانے والی ملے ۔کشمیر یونیورسٹی کے رجسٹرار بھی اس تقریب میں موجود تھے جبکہ مختلف شعبوں سے وابستہ افسراد کے علاوہ قریب 200نجی اسکولوں کے سربراہان نے بھی شرکت کی ۔
’’این او سی پر این او سی‘‘، نجی اسکولوں کا بھارتی شکشا بورڈ سے وابستگی کا عندیہ
