عظمیٰ ویب ڈیسک
جموں// جموں زون کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) آنند جین نے منگل کو کہا کہ ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی جو خطے میں غیر ملکی لوگوں بالخصوص روہنگیائی مسلمانوں کو بسانے میں مدد اور سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آئی جی پی جموں آنند جین نے کہا کہ پولیس کو بار بار اطلاعات مل رہی ہیں کہ جموں خطہ میں چند دشمن عناصر کی طرف سے غیر قانونی بستیاں قائم کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور جو بھی ملوث پایا جائے گا اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
آئی جی پی نے کہا،”ہمیں اطلاعات مل رہی تھیں کہ کچھ عناصر جموں کے علاقوں میں روہنگیا کو ان کی آباد کاری میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ یہ عناصر غیر ملکی لوگوں کی رہائش، سم کارڈ، راشن کارڈ اور دیگر مطلوبہ دستاویزات فراہم کر رہے تھے جو ان غیر ملکی لوگوں کو ملک کی بنیادی سہولیات حاصل کرنے کا حقدار بناتے ہیں”۔
آئی جی پی نے کہا کہ معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے، پولیس نے کارروائی کی اور جموں صوبہ میں 30 مقامات پر چھاپے مارے جہاں سے 40 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیر ملکی لوگوں کو کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنے میں ملوث پائے جانے والوں کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔
آئی جی پی نے کہا، ”جموں کے علاوہ ڈوڈہ، کشتواڑ، پونچھ اور راجوری میں ایسے معاملات کا پتہ لگانے کیلئے چھاپے مارے گئے۔ اس سلسلے میں کئی معاونین کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ہیں اور مزید تفتیش شروع کر دی گئی ہے“۔
آئی جی پی نے کہا کہ صرف جموں ضلع میں 7 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں جبکہ ڈوڈہ، راجوری اور کشتواڑ اضلاع میں ایک ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا،”ہم جانچ رہے ہیں کہ باہر کے لوگوں نے سم کارڈ، راشن کارڈ اور دیگر دستاویزات کیسے حاصل کیے۔ تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور قصورواروں کو بخشا نہیں جائے گا”۔
آئی جی پی جموں نے بتایا، “مجموعی طور پر، 10 ایف آئی آر درج ہیں، جب کہ جموں صوبہ میں غیر ملکی لوگوں کی آبادکاری کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے 40 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے”۔
ایک سوال کے جواب میں، آئی جی پی نے کہا کہ پولیس کئی زاویوں سے کیس کی تفتیش کر رہی ہے اور آنے والے دنوں میں مزید گرفتاریاں کی جائیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا اس میں کسی گروپ یا تنظیم کا کوئی کردار ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ چند روہنگیا لڑکیوں نے مقامی باشندوں سے شادی کی، آئی جی پی نے کہا کہ “ایسے افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی جائے گی”۔