عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری اور جموں و کشمیر کے انچارج ترون چُگ نے بارہمولہ میں نیشنل کانفرنس پر شدید حملہ کرتے ہوئے پارٹی کو جھوٹے وعدوں اور خطرناک بیانیے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
بی جے پی کارکنوں کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے چُگ نے این سی قیادت، ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کو آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں انتخابات سے قبل کیے گئے وعدے یاد دلائے
انہوں نے سوال اٹھایا’’کہاں ہیں وہ ایک لاکھ نوکریاں جن کا وعدہ کیا گیا تھا؟ 180 دن میں تمام سرکاری اسامیوں کو پُر کرنے کا کیا ہوا؟ مفت 6 ایل پی جی سلنڈر اور 200 یونٹ مفت بجلی کہاں ہے؟ یہ صرف وعدے نہیں تھے، بلکہ جموں و کشمیر کے نوجوانوں اور غریبوں کے ساتھ ایک دھوکہ تھا۔
این سی کے منشور کو ’ظالمانہ مذاق‘‘قرار دیتے ہوئے، ترون چُگ نے کہا کہ پارٹی بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں بھی ناکام رہی ہے اور اب ’’ثقافتی یلغار‘‘کے نام پر سیاحت کو بدنام کر کے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا’’این سی اب بھارتی سیاحوں کو جارح قرار دے کر لوگوں کو گمراہ کرنے پر تلی ہے۔ یہ صرف مضحکہ خیز نہیں بلکہ خطرناک سوچ ہے۔
این سی کے رکن پارلیمان آغا روح اللہ کے اس بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے، جس میں سیاحت کو ’’ثقافتی یلغار‘‘کہا گیا تھا، چُگ نے کہا کہ ایسے بیانات پاکستان کے حمایت یافتہ پروپیگنڈے کی ترجمانی کرتے ہیں۔چُگ کا کہنا تھا جب نیشنل کانفرنس بھارتی سیاحوں کو ثقافتی حملہ آور قرار دیتی ہے، تو یہ کشمیریوں کی مہمان نوازی اور مشترکہ شناخت کی توہین ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاحت روزگار، امید اور رابطے کا ذریعہ ہے اور صرف وہی عناصر اس کی مخالفت کر سکتے ہیں جو نفرت کی پرانی سیاست سے چمٹے ہوئے ہیں۔ این سی کی یہ پسماندہ سوچ ان کی مایوسی کی علامت ہے۔ وہ برداشت نہیں کر پا رہے کہ کشمیر وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
ماضی کے واقعات کو یاد دلاتے ہوئے، چُگ نے کہا کہ این سی نے جموں و کشمیر میں بار بار انتخابات کو دھاندلی کا شکار بنایا، عوامی اعتماد کو مجروح کیا، اور دہشت گردی کی راہیں ہموار کیں۔ انہوں نے جمہوری اداروں کو یرغمال بنایا اور حقیقی آوازوں کو دبایا، جس سے پاکستان اور دہشت گرد نیٹ ورکس کو کشمیر کے زخموں کا فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔
چُگ نے اس بات پر بھی تنقید کی کہ این سی نے سرینگر میں تین دہائیوں بعد پرامن محرم جلوس کے انعقاد پر خاموشی اختیار کی۔ یہ وادی کے عوام کے لیے ایک روحانی اور ثقافتی فخر کا لمحہ تھا، لیکن نیشنل کانفرنس اس مثبت تبدیلی کو برداشت نہ کر سکی۔ ان کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں عوام کی عقیدت سے زیادہ اپنی سیاست عزیز ہے۔
انہوں نے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں تاریخی ووٹنگ ٹرن آؤٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا’’کشمیری عوام نے علیحدگی پسند دھمکیوں کو مسترد کیا اور جمہوریت کا ساتھ دیا۔ نیشنل کانفرنس کو پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا کوئی اخلاقی حق نہیں جبکہ وہ اسی نظام کی بے توقیری کرتے ہیں۔‘‘
پہلگام سانحے کا ذکر کرتے ہوئےچُگ نے کہا کہ جب یکجہتی اور ہمدردی کی ضرورت تھی، این سی نے تفرقہ انگیزی کو فروغ دیا۔ وہ متاثرین کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے، بلکہ پاکستان اور انتہا پسندوں کے بیانیے کو آگے بڑھایا۔ یہ حزب اختلاف کی سیاست نہیں بلکہ قوم سے غداری ہے۔
ترون چُگ نے ثقافتی یلغارکی اصطلاح کو زہریلا اور بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ کشمیری عوام اب خوف اور بلیک میلنگ کی سیاست کو مسترد کر چکے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کی وراثتی سیاست اور جذباتی بلیک میلنگ کا دور ختم ہو چکا ہے۔ کشمیری اب نوکری، امن اور وقار چاہتے ہیں نہ کہ 1975 کے نعرے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر، چُگ نے جموں و کشمیر کے عوام کی ہمت کو سراہا،انھوں نے کہا کہ پہلگام واقعے کے بعد ان کے فوری ردعمل، علیحدگی پسندوں کی دھمکیوں کو مسترد کرنے اور آئین سے محبت نے واضح کر دیا ہے کہ کشمیر بدل چکا ہے۔ اور نیشنل کانفرنس اس تبدیلی کو ہضم نہیں کر پا رہی۔
نیشنل کانفرنس کی وراثتی سیاست اور بلیک میلنگ کا دور ختم ،کشمیری اب نوکری، امن اور وقار چاہتے ہیں :ترون چُگ
