عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ہفتے کے روز کہا کہ جموں و کشمیر ایک غیر معمولی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے، خاص طور پر تعلیم، خواتین کی خودمختاری اور اقتصادی شعبوں میں۔
شوپیان میں خطاب کرتے ہوئے، ایل جی نے کہا کہ اب ذہنیت بدل رہی ہے اور وہ منفی بیانیے دم توڑ چکے ہیں جو کبھی کمیونٹی کو آرمی گڈول اسکول جیسے اقدامات سے دور رکھنے کے لیے پھیلائے جاتے تھے۔
منوج سنہا نے کہا ایک وقت تھا جب لوگوں سے کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو آرمی گڈول اسکول میں نہ بھیجیں۔ خوف اور بے اعتمادی پیدا کرنے کے لیے بیانیے تشکیل دیئے گئے۔ لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں—اگر ہمارے بہادر فوجی ہماری سرحدوں کی حفاظت کر سکتے ہیں، تو وہ ہمارے بچوں کو تعلیم کیوں نہیں دے سکتے؟
انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ اپنی بنیاد کھو چکا ہے، اور اب لوگ ان اداروں میں فراہم کی جانے والی معیاری تعلیم کی قدر کو تسلیم کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آرمی گڈول اسکولز دور دراز اور تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں امید اور مواقع کی علامت بن چکے ہیں۔ آج ان اسکولوں کے طلبہ صرف نصابی تعلیم ہی نہیں حاصل کر رہے بلکہ وہ ذمہ دار شہری بن رہے ہیں، اور کئی مقابلہ جاتی شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھا رہے ہیں۔
ایل جی سنہا نے جموں و کشمیر میں خواتین کی ترقی کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ہزاروں خواتین سیلف ہیلپ گروپس (SHGs) سے جڑ چکی ہیں، اور اب وہ روزگار تلاش کرنے والی نہیں بلکہ روزگار دینے والی بن چکی ہیں، اور قیادت کر رہی ہیں۔
انہوں نے نیشنل رورل لائیولی ہوڈ مشن (NRLM)، اُمیداور تیجسوانی جیسے فلیگ شپ اسکیموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف مالی امداد کے ذرائع نہیں بلکہ تبدیلی کے پلیٹ فارم بن چکے ہیں۔ ان اقدامات کے تحت خواتین کو ہنر پر مبنی تربیت، مالی امداد، اور رہنمائی فراہم کی جا رہی ہے، جس سے وہ اپنے کاروبار قائم کر کے سماجی و اقتصادی خودمختاری حاصل کر رہی ہیں۔
ایل جی کے مطابق، دیہی علاقوں بالخصوص شوپیان جیسے خطوں میں مقامی SHGs باغبانی، فوڈ پروسیسنگ، درزی کاری، اور زرعی کاروبار جیسے شعبوں میں فعال ہیں۔ ان کے چہروں پر اعتماد واضح ہے—وہ خود پر یقین رکھتی ہیں اور مستقبل پر بھی۔
ایل جی سنہا نے کہا کہ یونین ٹیریٹری کی معیشت گزشتہ پانچ برسوں میں دوگنی ہو گئی ہے، اور یہ کارنامہ بہتر حکمرانی، امن و امان میں بہتری، اور ترقیاتی عمل میں عوامی شراکت داری کی بدولت ممکن ہوا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ ترقی صرف اعداد و شمار کی حد تک نہیں بلکہ بہتر سڑکوں، اسکولوں، ڈیجیٹل ڈھانچے، اور روزگار کے مواقع کی صورت میں بھی نظر آتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ رجحان رواں برس بھی جاری رہے گاـ